مجروح شدن یک شهروند بلوچ حنفی مذهب درپی تیراندازی افراد مسلح ناشناس به سمت یک سوپرمارکت واقع در خیابان امام خمینی در شهرستان سراوان
امروز یکشنبه ۷ مرداد ماه ۱۴۰۳، در پی تیراندازی افراد مسلح ناشناس به سمت یک سوپرمارکت واقع در خیابان امام خمینی در شهرستان سراوان، شاگردمغازه با اصابت گلوله مجروح شد.
هویت این شهروند بلوچ حنفی مذهب، «سلیم فاضلی» حدودا ۳۰ ساله و اهل شهرستان سراوان عنوان شده است.
افراد مسلح سرمشینان یک خودرو سواری به سمت این سوپرمارکت شلیک مستقیم کردند که منجر به مجروح شده شاگرد مغازه با اصابت گلوله شده و ضاربین پس از آن از محل متواری شدهاند.
از هویت انگيزه ضاربین تا لحظه تنظیم گزارش اطلاعی در دست نیست.
چرا تا این حد با اشتیاق و شدت نتانیاهو رادر مجلس کنگره آمریکا تشویق میکنند؟
بیسابقهترین تشویق نمایندگان آمریکا برای نتانیاهو، تشویقهایی که حتی برای هیتلر و صدام و استالین و… هم سابقه نداشته است.
اما چرا تا این حد با اشتیاق و شدت، او را تشویق میکنند؟ چون او توانسته است که ۴٠ هزار مسلمان از امت محمد ﷺ را به قتل برساند و ٩٠ هزار نفر را زخمی کند (که دست و پایشان قطع شده یا کور شدهاند و…). یک بار دیگر این آمار را بخوان چون اینها صرفا عدد نیستند بلکه هر کدامشان یک انسان هستند که توسط صهیونیستهای اسرائیلی کشته یا معلول شدهاند.
در ما خیری نیست اگر خود و خانواده و فرزندانمان را با بغض و کینه از صهیونیستها و سایر کافران، نپرورانیم و این درد تنها زمانی تسکین بیابد که جمجمههای خُردشدهٔ تمام صهیونیستها را بر زمین زنیم.
آنها ما را به تعصبات جاهلیِ قومی و زبانی و نژادی و ملیتی، سرگرم کردهاند و ما را با نامِ نژاد و کشور و زبان و قوم و ملت و… به جان همدیگر انداختهاند تا اینگونه بتوانند جلوی چشمانمان، هم ما را سلاخی کنند هم به ریشمان بخندند. این داستان باید پایان یابد اما پایانی برای آن نیست مگر آنکه مانند آموزش سورهٔ فاتحه و محبت به والدین، در مورد برائت و تنفر از کافران و حُب مومنان و فضایل و ثوابهای عظیم و غیرقابل شمارش جهاد و قتال با کافران و مشرکان در همه جا صحبت شود تا این عطشِ سیریناپذیرِ جهاد با کافران در وجود تکتک ایمانداران زنده شود.
این موضوع صرفا با شور و حماسه، تحقق پیدا نمیکند بلکه باید برای آن برنامهها ریخت و شببیداریها کشید. از خود بپرسیم اگر همین امروز، صهیونیستهای سکولار و نوچههایشان به شهرهای ما حمله کنند، تا چه اندازه همانند مجاهدان غزه، توانایی مقابله با آنها را داریم و تا چه اندازه مانند مجاهدان غزه، برنامه و هماهنگی و ارتباط و فکر داریم و تا چه اندازه، تواناییهایمان در هر زمینهای که در آن استعداد داریم را پرورش و ارتقا دادهایم؟ اشک ریختن مانند پیرزنان، دردی را دوا نمیکند و اگر اشکها و بغضهایمان تبدیل به آتشی در درونمان برای نابودی رژیم سکولار صهیونیستی نشود، هیچ ارزشی ندارد.
جہادِ پاکستان؛ امام ابو حنیفہ کی فتویٰ کے تناظر میں
تحریر: سیف اللہ احرار
✓ کیا پاکستانی حکام کے خلاف خروج جائز ہے؟ ✓ کیا مفسد اور بے دین حکمران کے خلاف جہاد فرض عین ہوتا ہے!؟
145 ہجری کا واقعہ ہے کہ خلفائے بنو عباس کے فرمانروا منصور عباسی کے خلاف بصرہ وغیرہ میں محمد نفس زکیہ اور ابراہیم نفس مرضیہ دو بھائیوں نے تنفیذ شریعت اور اقامت دین حقہ کی غرض سے مسلح جہاد کا اعلان کیا ان حضرات کو کئی شہروں میں نمایاں کامیابی بھی حاصل ہوئی جہاں پر یہ حضرات قابض ہو جاتے تھے وہاں مکمل طور پر شریعت نافذ کرتے تھے، جہاں دیگر علماء کرام ان کی حامی تھے وہاں امام ابوحنیفہ اس تحریک کے روح رواں تھے ۔
الیافعی رح نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ابراہیم کیلئے لوگوں کو علی الاعلان جہاد پر ابھارتے تھے، کہتے تھے کہ ان کے ساتھ ہو کر حکومت کا مقابلہ کرو، امام زفر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم کی زمانے میں امام ابوحنیفہ انکی حمایت میں بڑی شدومد کے ساتھ بولنے لگے تھے ۔ (امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، صفحہ: 343)
اس کا مطلب یہی ہوا کہ امام ابوحنیفہ حکومت کے انتقام اور داروگیر سے قطعاً بے پرواہ ہو کر علانیہ ابراہیم کی حمایت کا دم بھرنے لگے تھے اور نہ صرف خود بلکہ جو بھی ان کے زیر اثر تھا اس کو ابراہیم کی حمایت پر آمادہ کرتے تھے اور امر کرتے تھے، “امر” کے اصطلاحی معنیٰ لے لئے جائیں تو اس کے معنی یہ ہوں گی کہ ان کا ساتھ دے کر حکومت ظالمہ کے مقابلے کو فرض قرار دیتے تھے وہ بھی کیسا فرض!؟ (دعوت جہاد، لشیخ فضل محمد، صفحہ: 187)
ذرا دیکھئے کہ کوفہ کے مشہور محدث ابراہیم بن سوید کا بیان ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ابراہیم بن عبداللہ کے خروج کے زمانے میں پوچھا: کہ آج جو حج فرض ہے اس کے بعد آپ کا کیا خیال ہے اس شخص یعنی ابراہیم کی رفاقت میں حکومت سے مقابلہ زیادہ ثواب کا کام ہے!؟ ابراہیم بن سوید کہتے ہیں کہ غور کے ساتھ میں نے دیکھا کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کہہ رہے تھے اس جنگ میں شرکت پچاس حج سے زیادہ افضل ہے ۔ (امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، مؤلفہ مناظر احسن گیلانی، صفحہ: 343)
اس کے واقعے کی تحقیق میں شیخ فضل محمد صاحب رح اپنے کتاب دعوت جہاد میں کچھ اسطرح لکھا ہیں: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اس فتوے سے ایک مسئلہ تو یہ حل ہوگیا یا کہ نفلی 50 حج سے جہاد افضل عبادت ہے دوسرا یہ مسئلہ حل ہوا کہ نفاذ شریعت کے لیے مسلح جہاد کرنا اور اسلحہ اٹھانا مسلمانوں پر فرض ہے ۔ اگر چہ یہ حکومتِ وقت اسلام کے نام پر قائم کیوں نہ ہو ۔
دیکھو منصور عباسی آخر مسلمان تھا اور آج کل کے حکمرانوں سے بدرجہا بہتر مسلمان تھا، مگر نفاذ شریعت کے لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ان کے ساتھ لڑنے کو فرض قرار دیا اور جو اس میں مارا جائے ان کو شہید قرار دیا ۔ چنانچہ مصیصہ چھاؤنی کے ایک کمانڈر کا بھائی ابراہیم کے ساتھ ہو کر حکومت کے فوجیوں کے ہاتھوں سے مارا گیا، اس کا بھائی مصیصہ سے آیا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملا اور کہا کہ میرے بھائی کو اپنے ابھارا اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا، یہ آپ نے بہت برا کام کیا کیا ۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: میں تو چاہتا تھا کہ کفار کے مقابلے سے دستکش ہو کر تم یہاں آجاتے اور تیرا بھائی جہاں شہید ہوا تھا وہاں پر تم بھی شہید ہو جاتے تو اس سے بہتر ہوتا جو تم کفار کے مقابلہ میں مصیصہ میں تھے اور تم جو جو جہاد کر رہے تھے اس سے مجھے یہ جہاد زیادہ پسند ہے ۔ جس میں تیرا بھائی گیا ہے ۔ (دعوت جہاد، لشیخ فضل محمد، 188)
اس فتوی سے تیسرا مسئلہ یہ حل اور واضح ہو گیا کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے مسلح جہاد کرنا ضروری ہے اور ملاکنڈ کی غیور مسلمانوں نے جو نفاذِ شریعت کے لیے جانیں قربان کی ہے وہ سچے شہید ہیں ۔
ترور یک شهروند بلوچ حنفی مذهب اهل و ساکن قصرقند و کارمند شهرداری در محل کارش در قصرقند
بارها گفته ایم که وحود فرقه ها و احزاب مسلح در بلوچستان یعنی دزدی و سرقت و کشت و کشتار بلوچها توسط بلوچها. این احزاب با نا امن کردن راهها و روستاها در واقع میدان را برای دزدها و قاتلین باز کرده اند. این احزاب اخیرا گفته اند که با مامورین امنیتی بومی و غیر بومی می جنگند اما تجربیات مختلف در مناطق دیگر جهان و ایران ثابت کرده که هدف این احزاب تمام کارمندان دولت است اما مرحله به مرحله. مگر همین احزاب در کردستان کارمندان جهاد سازندگی و محیط زیست و غیره را ترور نکردند؟ مگر چند وقت پیش همین بلوچها کارمندان بهداشت را مورد حمله قرار ندادند؟ در همین راستا، شنبه ۶ مرداد ماه ۱۴۰۳، یک شهروند بلوچ حنفی مذهب از کارمندان فعلی شهرداری شهرستان قصر قند توسط افراد مسلح ناشناس مورد هدف گلوله قرار گرفت و با اصابت چند گلوله به قتل رسید.
هویت این شهروند بلوچ حنفی مذهب، «امین عزیزی» حدودا ۳۷ ساله فرزند فیضمحمد، متاهل و دارای فرزند، اهل و ساکن قصرقند احراز شده است.
صبح شنبه افراد مسلح ناشناس سرنشینان یک خودرو سواری پژو پارس به محل کار او در شهرداری یورش بردند و با شلیک مستقیم وی را مورد اصابت شش گلوله قرار دادند و او بر اثر شدت جراحات وارده به قتل رسید.
امین چند سال قبل از سپاه پاسداران که از اعضای بومی و کارمند قسمت روابط عمومی آن بود استعفاء داده و در شهرداری شهر قصرقند مشغول به کار بوده و هیچ دشمنی که بخواهد وی را بقتل برساند نداشته است.
این احزاب متفرق و جنایتکار بلوچ روزی باید جوابگوی تمام این جنایات و خیانتهای خود به مردم بلوچ باشند. مولوی هایی هم که در برابر این احزاب و فرقه های شبه مافیایی سکوت کرده اند و حتی در فضای مجازی بر ضد این جنایتکاران نیستند باید پاسخگو باشند.
صلح و سازش دو تیره از طایفه «ریگی نرونی» با پادرمیانی علما و ریش سفیدان در خاش
شامگاه چهارشنبه ۳ مرداد ماه ۱۴۰۳، پس از پنج سال اختلافات و درگیری بین دو تیره از طایفه ریگی نرونی از ساکنین منطقه تفتان با کشته شدن شش نفر از دو طرف با وساطت معتمدین و ریش سفیدان به صلح و سازش انجامید.
این جلسه در منزل خان محمد کرد با حضور و پادرمیانی علما و ریش سفیدان و معتمدان منطقه برگزار شد و بین دو تیره از این طایفه صلح و سازش صورت گرفته و دو طرف اختلافات خود را کنار گذاشته و با بخشش هم، یکدیگر را در آغوش گرفتند.
گفتنی است که چند زندانی از جمله “یاسین ریگی” که به اتهام قتل “مولوی عبدالواحد ریگی” امام جمعه خاش در بازداشت بود با رضایت خانواده در روزهای آینده آزاد خواهند شد.
گفتنی است که مولوی عبدالواحد ریگی استاد حدیث حوزه علمیه مدینه العلوم شهرستان خاش در روز ۱۷ آذر ماه ۱۴۰۱، بعد از ادای نماز ظهر از محل مسجد جامع امام حسین خاش ربوده و کشته شده بود.
لازم به ذكر است که قتل این مولوی حین اغتشاشات زن، هرزگی فاحشگی اتفاق افتاده بود.
دکتر عبدالله نفیسی در کتاب دور الطلبة في العمل السياسي می گوید:
شاید در اینجا خالی از فایدە نباشد کە تأکيد کنیم بر اینکه یکی از مهمترین عواملی که به گرفتار شدن امت اسلامی در دام سقوط و ضعف فرهنگی و سیاسی بعد از دوران صدر اسلام منجر شد، پشت کردن و غافل شدن از مسئلهی حاکمیت و (ادارە) جامعه و توجه کردن به شعر، مباحث کلامی و فلسفی، (اختلافات) فقهی و فوائد نظری و ادبی بود.
به تعبیری واضحتر مسلمانان از محیط و شرایط سیاسی و اصلاح آن فاصله گرفته و به جای آن به مناقشات فکری و نظری اهمیت دادند؛ از حاکمیت و اداره جامعه و حفظ امنیت و آینده آن دست کشیده و آن را به دست افراد و گروه هایی سپردند که کمترین وصفشان بی لیاقتی، بی تقوایی، نفاق و پستی میباشد.
اینگونه بود که (مفاهیم) دولت و حاکمیت و فعالیت سیاسی در چند قرن اخیر از تاریخ امت، به ضد و نقیضی در برابر فضیلت و تقوی تبدیل شد و بالعکس این مفاهیم را به سرکوب مردم و فریب و ریاکاری ربط دادند و این تصور باطل باعث شد مردم (خصوصا اهل علم) از دخالت در امور سیاسی خودداری کنند.
در حقیقت از جمله عقب گردها و شكستهای خطرناک در تاریخ امت اسلام، دوری کردن افراد فاضل، عالم و پاک طینت و آبرومند از دنیای سیاست و سیطره سفیهان و اشرار و خائنان بر آن میباشد.
مہمند ایجنسی میں مجاہدین کا زبردست مقابلہ، سی ٹی ڈی کا شرمناک عمل
گزشتہ روز دوپہر کے وقت ولایت پشاور، مہمند ایجنسی کی تحصیل انبار کے علاقے گمبتئی میں سی ٹی ڈی اور خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے ملکر مجاہدین کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا جسے بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد مزید سینکڑوں نفری بلوائی گئی ـ
تیس گھنٹوں سے زائد جاری اس معرکے میں سی ٹی ڈی کے کم از کم دو اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، جبکہ ایک کلاشنکوف بھی مجاہدین نے حاصل کی ـ
مجاہدین نے شجاعت کی داستان رقم کرتے ہوئے اس جنگ کو طول دیا اور بدنام زمانہ سی ٹی ڈی انہیں گرفتار یا قتل کرنے میں ناکام رہی اور بالآخر ایکسویٹر مشین سے مجاہدین کی پناہ گاہ غار پر مٹی ڈال کر یونہی چھوڑکر ایک بار پھر شرمناک تاریخ رقم کردی ـ
اس جنگ میں ہمارے تین مجاہدین شہید ہوئے اور باقی تمام ساتھی محفوظ ٹھکانوں تک پہنچ گئے الحمدللہ ـ
مولوی های اهل بدعت مرجئه زده ی ما بالاترند یا رسول الله صلی الله علیه وسلم؟
به قلم: عبدالرحمن براهوئی
در ایران شورشی تحت عنوان ژن ژیان پژو ( زن، هرزگی، فاحشگی) توسط احزاب سکولار و مرتد کُرد برپا شد که به تدریج تمام دشمنان قانون شریعت الله در ایران را نیز با خود همراه کرد.
با آنکه مولوی هایی معول الحال اهل بدعت در بلوچستان از این هرزه ها با سخنانی متناقض حمایت کردند اما مردم مسلمان بلوچ با این هرزه ها هم مسیر نشدند تا اینکه قضیه جمعه خونین اطراف مسجد مکی زاهدان پیش آمد و مردم مسلمان بلوچ به این دلیل شروع به اعتراض کردند نه به خاطر همراهی با جنبش هرزه های سکولار.
در این دوران، زمانی که ما به افرادی خاص گوشزد می کردیم که هم مسیر شدن با این هرزه های سکولار جرم و گناه است و بر اساس آیات و احادیث صحیح رسول الله صلی الله علیه وسلم و رای ائمه ی مذاهب اربعه نباید در این فتنه شرکت کرد، اینها در جواب می گفتند مگر شما چند نفر بیشتر می دانید یا مولوی فلانی که از این جنبش حمایت می کند و…؟
عده ای با ابن عباس رضي الله عنهما جرو بحث کردند که آنها حج مفرد را ترجیح می دادند، ابن عباس گفت: نزدیک است که از آسمان بر شما سنگ ببارد، من میگویم: رسول الله صلى الله عليه وسلم فرمود ومیگویید: ابوبکر وعمر گفت؟
همچنین عبد الله بن عمر رضي الله عنهما هنگامیکه این حدیث پیامبر صلى الله عليه وسلم خواند: « زنان مسلمان را از مساجد خدا منع نکنید» یکی گفت: سوگند به خداوند که آنها را حتما منع میکنم. پس عبدالله به خشم آمد، واو را سخت فحش داد، وگفت: من میگویم که رسول الله فرمودند وتو میگویی، سوگند به خدا که که آنهارا منع می کنیم ؟
اگر کسی که سنت را بخاطر قول ابوبکر وعمر مخالفت کند، بیم نزول عذاب بر او است پس چگونه خواهد بود حال کسی که بخاطر قول شخصی که پایین تر از آنهاست با سنت رسول الله صلی الله علیه وسلم و حتی با آیات صریح قرآن مخالفت کند؟
در اینجا این مریدان مولوی ها که به عبادت این مولوی ها مشغولند باید از خود بپرسند این مولوی های اهل بدعت خوشگذران بالاترند یا آیات قرآن و احادیث صحیح رسول الله صلی الله علیه وسلم و قول ائمه ی 4 مذهب؟
به منهج صحیح اسلامی برگردید، هم اهل سنت واقعی شوید و هم اهل جماعت و دست از این فرقه بازهای ضرار ساز بردارید که هر یک برای خود فرقه و گروه و جمع و جریانی ساخته و بر جهالت شما نان می خورند و با جان و ناموس و مال شما تجارت و بازی می کنند.
۲۴ هزار مادر دارای ۳ فرزند به بالا در سیستان و بلوچستان رایگان بیمه میشوند
مدیر صندوق بیمه اجتماعی کشاورزان، روستائیان و عشایر سیستان و بلوچستان: بر اساس ماده ۲۱ طرح جوانی جمعیت، مادران دارای سه فرزند به بالا بصورت ۱۰۰ درصد رایگان تحت پوشش صندوق بیمه اجتماعی کشاورزان، روستائیان و عشایر قرار میگیرند.
چنانچه در زمان تحت پوشش قرار گرفتن بیمه، فرزندان چهارم و پنجم و بیشتر متولد شوند، به ازای هر فرزند متولد شده جدید، دو سال به سابقه بیمه این مادران افزوده خواهد شد.