روداد شہادت حافظ عطا محمد شہید رح !

روداد شہادت حافظ عطا محمد شہید رح !

کاتب: محمد اسامہ غازی
جامعہ فریدیہ اسلام آباد

میرے والد حافظ عطا محمد شہید مولانا عبدالعزیز غازی صاحب کے ماموں زاد اور پھوپی زاد بھائی تھے گاؤں میں مدرسہ جامعہ عبداللہ بن غازی کے نظامت انہی کے سپرد تھی
اکثر جب لال مسجد کے حالات خراب ہوتے تو مولانا عبدالعزیز غازی و علامہ عبد الرشید غازی کے حکم پر اسلام آباد آجاتے اور جب حالات نارمل ہوتے تو واپس چلے جاتے
آخری بار جب آپریشن سے کچھ دن پہلے حالات زیادہ خراب ہونے لگے اور آپریشن کے بادل منڈلانے لگے تو انہوں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا اس وقت میری عمر 6 برس تھی
جب انہوں نے گھر والوں سے اجازت چاہی تو سب نے منع کردیا لیکن حضرت والد صاحب جو شوق شہادت سے لبریز تھے وہ کہاں یہ موقع ہاتھ سے جانے دیتے اگلے دن وہ صبح طلوع آفتاب کے وقت بن بتائے گھر سے روانہ ہوئے اور براستہ رحیم یار خان اسلام آباد پہنچ گئے
لال مسجد پہنچ کر انہوں نے گھر میں اطلاع دی کہ میں یہاں پہنچ گیا ہوں
ان کے پہنچنے کے ایک دن بعد ہی لال مسجد کا مکمل محاصرہ کر لیا گیا اور اسلام آباد میں کرفیو نافذ کردی گئی
اس دوران فون کال پر ہم سے رابطے میں رہے
اکثر چاچو نیاز محمد کے موبائل پر کال کرکے ہم سے بات کرتے
آپریشن کے دوران بھی رابطے میں تھے اور فائرنگ کی گھن گرج بھی کال پر سنائی دیتی تھی
علامہ غازی شہیدؒ نے جامعہ سیدہ حفصہ کی کمانڈ میرے والد کے سپرد کی تھی اور لال مسجد کی کمانڈ مفتی انعام اللہ شہیدؒ کے حوالے تھی
علامہ عبد الرشید غازی  خود میڈیا کے ساتھ مصروف رہتے تھے
دورانِ آپریشن والد صاحب کے ساتھ رابطے کی دو ریکارڈنگ ہمارے پاس موجود ہیں
ایک میں اپنے گاؤں کے دوست سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں تین دن سے کچھ نہیں کھایا ابھی ایک جوس کا ڈبہ ملا ہے اگر پینا ہے تو آپ بھی آجائیں یہاں (ازروئے مزاح)
دوسری آڈیو ریکارڈنگ دورانِ مزاحمت کی ہے جس میں وہ مولانا حسان غازی کو تھوڑا پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے ہیں کہ کرالنگ کر کے واپس مورچے کی طرف آجائیں آگے رینجرز والے زیادہ تعداد میں ہیں تو حسان غازی صاحب جواب دیتے ہیں کہ سامنے درختوں پر مجھے حوریں بلا رہی ہیں میں کیسے پیچھے ہٹوں۔
اس کے بعد تقریباً 6 یا 7 جولائی کا دن تھا جب ہم اپنے اوطاق پر دادا جان کے ساتھ والد صاحب سے رابطے کی کوشش کر رہے تھے،والد صاحب سے رابطہ ہوا تو انہوں کہا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے میں نے7 ف مار گرائے ہیں جو جامعہ حفصہ کی طرف پیش قدمی کی کوشش کر رہے تھے اب اگر شہید بھی ہو جاؤں تو کوئی پرواہ نہیں
غالبا اسی دن شام کو والد صاحب نے کال کے بتایا کہ شیر گولی لگنے سے زخمی ہوگیا ہے ان کے لئے خصوصی دعا کریں
شیر سے انکی مراد علامہ غازی عبد الرشید شہیدؒ تھے جنہیں ٹانگ میں گولی لگی تھی
آپریشن کے دوران دادا جان اور چاچو شاہ محمد جوکہ بھائیوں میں سب سے زیادہ والد صاحب سے محبت کرتے تھے بار بار واپس آنے کا کہتے رہے مگر والد صاحب کا یہی جواب ہوتا تھا کہ جنگ سے پیچھے ہٹنا اسلامی اور ہماری بلوچی روایات کے خلاف ہے۔
آخر میں جب مذاکرات کامیابی کی طرف جا رہے تھے تو رات تہجد کے وقت فون کال کر کے ہمیں یہ امید دلائی کہ مذاکرات کامیاب ہونے لگے ہیں اگر زندگی رہی تو کل ان شاء اللہ علامہ عبد الرشید غازی کے ہمراہ ہم گاؤں آجائیں گے
پھر اچانک مذاکرات ناکام ہو گئے اور آپریشن دوبارہ شروع ہو گیا اور دس جولائی کے دن علامہ عبد الرشید غازی مولانا حسان غازی اور میرے والد حافظ عطا محمد جامِ شہادت نوش کر کے رب کے حضور پہنچ گئے
پورے خاندان کی خواہش تھی کہ انکی آخری آرام گاہیں جامعہ فریدیہ ای سیون میں حضرت شہید اسلام مولانا عبد اللہ شہیدؒ کے ساتھ بنائی جائیں لیکن حکومت نہیں مانی
اس کے بعد انہیں اپنے گاوں میں لانے کا فیصلہ کیا گیا اور جامعہ عبد اللہ بن غازی میں پانچ قبریں کھودی گئیں
علامہ عبد الرشید غازی اور انکی والدہ،مولانا حسان غازی مفتی انعام اللہ اور حضرت والد صاحب کی، ان سب شہداء کی تدفین کی تیاری کی گئی لیکن حکومت نے صرف علامہ عبد الرشید غازی شہیدؒ کی میت حوالے کی باقی لاشیں دینے سے انکار کردیا
بعد میں حکومت نے انہیں H-11 قبرستان میں دفن کردیا لیکن دادا جان کو تسلی نہیں ہوئی انہوں نے قبر کھود کے اپنے بیٹے کی شناخت کرنی چاہی تاکہ دل کو تسلی مل سکے کہ انکے لخت جگر واقعی شہید ہو چکے ہیں یا کہیں زندہ گرفتار ہوگئے تاکہ انکی واپسی کی امید رکھی جا سکے
بالآخر بہت ساری قبریں کھولنے کے بعد دادا جان نے والد صاحب کو انکی پنڈلی سے پہچان لیا کیونکہ والد صاحب کے لاشے کا صرف دھڑ موجود تھا سَر نہیں تھا
شہادت کے وقت والد صاحب کی عُمر محض27 سال تھی
اللہ پاک نفاذِ اسلام کے لئے اپنا خون پیش کرنے والے سرفروشوں کی قربانیاں قبول فرمائے پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا فرمائے اور ہمیں انکے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین

گزشتہ روز شہدائے لال مسجد کی قبور پہ فاتحہ پڑھنے کے لئے حاضری ہوئی جہاں 25 سے زائد قبریں ہیں جن میں بیسیوں شہداء مدفون ہیں

گزشتہ روز شہدائے لال مسجد کی قبور پہ فاتحہ پڑھنے کے لئے حاضری ہوئی جہاں 25 سے زائد قبریں ہیں جن میں بیسیوں شہداء مدفون ہیں

✍🏻اسامہ بلوچ

تقریباً ہر قبر میں ایک سے زائد
شہیدوں کو دفنایا گیا ہے اور ان میں بھی دو چار ہیں جو صحیح سالم ہیں باقی اکثر شہداء کی صرف باقیات ہیں سالم جسم کسی کا نہیں
شہدائے لال مسجد کے شہیدوں میں صرف امامِ برحق علامہ عبد الرشید غازی رح کی میت صحیح سلامت دی گئی باقی سب کو بغیر شناخت کے راتوں رات دفنا دیا گیا
بعد ازاں ورثاء کی جانب سے قبروں کی کھدائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تاکہ وہ یہ تسلی کر سکیں کہ ان کے عزیز واقعی شہید ہوچکے ہیں یا پھر کہیں زندہ ہیں جن کی واپسی کا انتظار کیا جائے
قبور کشائی کے دوران ورثا نے صرف شناختی علامات سے اپنے عزیزوں کو پہچانا کیونکہ اکثر کے جسموں پہ تو سر ہی نہیں تھے اور بہت سارے ایسے تھے جن کے صرف ہاتھ پیر سلامت تھے  اور بہت سوں کو فاسفورس سے جلا کر ان کی شناخت ہی مٹا دی گئی  اور کئی شہداء ایسے ہیں جو جامعہ حفصہ کے ملبے تلے مدفون ہیں
وہ شہدا جن کی شناخت ممکن ہوئی ان میں ایک میرے ماموں زاد (کزن)بھائی عطاء محمد شہید ہیں جنہیں ان کے والد نے صرف پنڈلی سے پہچانا اور دوسرے میرے سُسر مفتی انعام اللہ شہیدؒ ہیں جنہیں پہچاننے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں سوائے چند گوشت کے لوتھڑوں کے سو ان کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے کر کے ورثاء کو ان کی قبر دکھا دی گئی
بہت سارے حضرات پھیلائی گئی غلط فہمیوں کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ اس سانحہ میں صرف چند لوگ ہی شہید ہوئے ہیں زیادہ نہیں ہوئے تو وہ حضرات شہداء کی قبروں کا ایک بار دورہ ضرور کرلیں
شہدائے لال مسجد میں سب سے کم عمر شہید جن کی شناخت ہو سکی ان کی عمر صرف سولہ سال ہے
سبحان الله کیا ہی شہادت پائی ہے اس بچے نے کہ جوانی میں قدم رکھتے ہی جنتوں کی اراضی کا مالک بن گیا
جیسے میں نے کہا بہت کم ہیں جن کی شناخت ممکن ہوئی ورنہ ان کے علاوہ کتنے ہی کم عمر معصوم ہیں جن کی شناخت ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی قبروں کا کوئی اتہ پتہ معلوم ہو سکا ان میں میری خالہ اور مولانا عبدالعزیز غازی صاحب کی والدہ بھی ہیں جو آخری وقت میں زخمی حالت میں اپنے کمرے میں موجود تھیں اور ان کی آخری بات علامہ عبد الرشید غازی شہیدؒ سے ہوئی اس کے بعد نہ تو کسی نے انہیں دیکھا اور نہ ہی انکی قبر کا پتہ چل سکا کہ وہ کہاں مدفون ہیں
وطنِ عزیز میں نفاذِ اسلام کا مطالبہ کرنے والوں پر ظلم و سفاکیت کی ایک طویل داستان ہے جو صحرائے کربلاء میں برپا کیئے گئے بربریت کی یاد دلاتی ہے !

۱۸ فوجيان مردار او زخميان شول الحمدلله

18 فوجيان مردار او زخميان شول الحمدلله

ولايت بنو
(1 )ولسوالی ميرعلی علاقه ماريخيل د اسلامی نظام دشمن او د امريکې غلام او په پاکستان باندې جبری قابض فوجی ټوله د عام ولس په کورنو باندې چهاپې په بهانه کورنو نه غلاګانې کوالې سنګه چې طالبان خبر شول فورا طالبانو پرې عمليات اوکړل
دې کامياب عمليات کې 7 فوجيان مردار شول الحمدلله
( 2)ولسوالی جانی خيل علاقه والی نور په پوسته باندې د ليزر او نورې په ذريعه تعارضی عمليات اوشول
دې کامياب عمليات کې 3 فوجيان مردار او زخميان شول
او يو کشفی کيمره هم تخريب شوله الحمدلله
( 3)ولسوالی ګړيوم  علاقه شوزې بودر کې فوجی پوسته باندې تعارضی عمليات اوشول
دې کامياب عمليات کې  2 فوجيان مردار او زخمی شو
ولايت ملاکنډ
( 4)چترال ولسوالی دروش علاقه اوسون دره کې فوجی پوسته باندې تعارضی عمليات اوشول دې کامياب عمليات کې 4 فوجيان مردار او زخميان شول الحمدلله
ولايت ډی آئ خان
( 5)ولسوالی شکتوئ علاقه لای پنګه کې داسنائپر په مټ يو فوجی مردار او بل زخمی شو

🍋بیش از ۲ هزار و ۷۰۰ تن لیمو ترش در جنوب بلوچستان برداشت شد

🍋بیش از ۲ هزار و ۷۰۰ تن لیمو ترش در جنوب بلوچستان برداشت شد

معاون بهبود تولیدات گیاهی سازمان جهاد کشاورزی سیستان و بلوچستان گفت: بیش از ۲ هزار و ۷۰۰ تن لیمو ترش تاکنون از سطح ۶۵۰ هکتار از باغات بارور جنوب این استان برداشت و روانه بازار مصرف شد.

اردشیر شهرکی اظهارکرد: سطح کل باغات لیمو ترش در سیستان و بلوچستان یک‌هزار و ٢٨٢ هکتار بوده که ۶۵۰ هکتار آن بارور است.

وی بیان کرد: لیموی تولیدی سیستان و بلوچستان علاوه‌بر فرآوری خانگی شامل ترشی و آبگیری در منطقه برای مصرف تازه خوری به سایر شهرستان‌های استان نیز ارسال می‌شود.

شهرکی ادامه داد: شهرستان‌های سرباز، چابهار، قصرقند، نیکشهر، کنارک و ایرانشهر عمده مناطق کشت لیموترش در سیستان و بلوچستان هستند.

دانشگاه بین‌المللی چابهار در جذب دانشجوی خارجی هیچ محدودیتی ندارد

دانشگاه بین‌المللی چابهار در جذب دانشجوی خارجی هیچ محدودیتی ندارد

رئیس هیأت مدیره و مدیرعامل سازمان منطقه آزاد چابهار گفت:

دانشگاه بین‌المللی چابهار یکی از معدود دانشگاه‌هایی در شرق کشور است که در جذب دانشجویان بین‌المللی محدودیتی ندارد.

جراحی پیچیده سه عضو مبتلا به کیست هیداتید در کودک سه ساله زاهدانی در بیمارستان علی ابن ابیطالب (ع) زاهدان

جراحی پیچیده سه عضو مبتلا به کیست هیداتید در کودک سه ساله زاهدانی در بیمارستان علی ابن ابیطالب (ع) زاهدان

فوق تخصص جراحی اطفال بیمارستان علی ابن ابیطالب (ع) زاهدان;

عمل جراحی کیست هیداتید در کودک سه ساله‌ای که در اتفاقی نادر، سه عضو بدن وی دچار این کیست شده بود با موفقیت انجام شد.
کبد و هر دو ریه این کودک سه ساله دچار کیست هیداتید شده و این کیست باعث ایجاد مشکل تنفسی در کودک شده بود.
در سه مرحله عمل جراحی تمامی کیست‌ها با موفقیت برداشته و بیمار با حال عمومی خوب از بخش فوق تخصصی جراحی کودکان بیمارستان علی ابن ابیطالب مرخص شد.

اعزام شش کبدی کار سیستان و بلوچستان به اردوی‌های تیم ملی کبدی

اعزام شش کبدی کار سیستان و بلوچستان به اردوی‌های تیم ملی کبدی

روابط عمومی اداره کل ورزش و جوانان سیستان و بلوچستان:
امیرمهدی قدرتی، مهدی آرامی و مسلم راشکی با حضور رسا ریگی رئیس اداره ورزش و جوانان شهرستان زاهدان و پهلوان دبیر هیات کبدی استان به اردوی تیم ملی کبدی ساحلی برای اعزام به مسابقات قهرمانی جهان اعزام شدند.
همچنین امیرحسین عزیزی فر، امیررضا حاتمی و امیر محمد ظفردانش به اردوی تیم ملی سالنی برای اعزام به بازی‌های آسیایی داخل سالن به اردبیل اعزام شدند.
کیانوش نادریان سرمربی تیم ملی ساحلی به همراه بهزاد بامدی مدیر تیم ملی ساحلی نیز از استان سیستان و بلوچستان حضور دارند.
اردوی‌های آماده‌سازی تیم ملی ساحلی تهران و سالنی اردبیل از روز گذشته آغاز و تا چهاردهم به ترتیب در مجموعه ورزشی بعثت واقع در استان تهران و استان اردبیل برگزار می‌شود.

پیش بینی ۱۲۰ میلیارد تومان برای توسعه و آبادانی زرآباد در جنوب سیستان و بلوچستان

پیش بینی ۱۲۰ میلیارد تومان برای توسعه و آبادانی زرآباد در جنوب سیستان و بلوچستان

فرماندار زرآباد در جنوب سیستان و بلوچستان: اولویت اعتبارات باید با طرح های نیمه تمام باشد و تا زمانیکه اداره‌ای طرح نیمه تمام دارد، حق کلنگ زنی طرح جدید را ندارد.

سال گذشته هواشناسی نسبت به تکمیل ساختمان روستای شریف آباد تعهد کرد اما متاسفانه تاکنون هیچ گونه اقدامی صورت نگرفته است و باید مشخص شود اعتبار سال ۱۴۰۲ را کجا هزینه کرده است.

معرفی مدیر جدید نهاد نمایندگی رهبری در امور اهل سنت سیستان و بلوچستان با حضور مولوی نذیر احمد سلامی و….

معرفی مدیر جدید نهاد نمایندگی رهبری در امور اهل سنت سیستان و بلوچستان با حضور مولوی نذیر احمد سلامی و….

در مراسمی با حضور نماینده مقام معظم رهبری در سیستان و بلوچستان، حجت‌الاسلام‌والمسلمین محمدتقی سیفایی به عنوان مدیر جدید نهاد نمایندگی رهبری در امور اهل سنت استان سیستان و بلوچستان معرفی شد.

از زحمات حجت‌الاسلام‌والمسلمین حسن آکو مدیر سابق نهاد نمایندگی رهبری در امور اهل سنت استان تقدیر به عمل آمد و حجت‌الاسلام‌والمسلمین محمدتقی سیفایی به عنوان مدیر جدید این مجموعه معرفی شد.

‌ از بین بردن اتحاد مسلمانان

‌ از بین بردن اتحاد مسلمانان

به قلم: محمد قاسم صیفوری

لورنس براون می‌گوید: اگر مسلمانان تحت یک حکومت، متحد شوند ممکن است به یک کابوس برای جهان تبدیل شوند ولی اگر متحد نباشند مایه خیر و برکت خواهند بود چرا که در آن موقع، آن‌ها ضعیف می‌شوند و قدرتی نخواهند داشت.

تاریخ‌نگار مشهور آرنولد توین بی می‌گوید: اتحاد اسلامی در خواب است ولی لازم است یادآوری کنم که هر لحظه ممکن است از خواب بیدار شود.

  امروزه جهان کفر از این اختلاف و پراکندگی ما استفاده‌ای کافی را می‌برند. آنچه که برای لازم است اتحاد و همدیگرپذیری است. نگذاریم بنام قوم و قبیله و بنام مذهب و نژاد ما را تکه‌تکه کنند. چون کوچک‌ترین اختلاف ما بزرگ‌ترین دست‌آورد دشمن است. متأسفانه امروز در این دیار عزیز ما افغانستان جنگ فکری دشمنان چنان کار کرده است که حتی بعضی‌ها حاضر نیستند با بعضی اقوام دیگر سلام بدهند!

مارا چه شده به کدام طرف روان هستیم؟
چرا به خود نمی‌آیم؟
و چرا درک نمی‌کنیم.؟
و چرا بیدار نمی‌شویم؟

فرانسه و انگلیس و چین و روس و آمریکا و بقیه جهان شرق و غرب، با ما دوست‌ شدنی نیستند. کسی که با غم و شادی ما شریک و در کنار ماست، آن خود ما هستم. و کسی که وطن ما را می‌سازد آن خود ما هستیم. چرا خود را بخاطر منافع و خواهشات کفار قربان می‌کنیم. اصلاً می‌دانیم که چه کار را انجام می‌دهیم!