پہــرے داری میں جـاگنے والـی آنکهـیں جہــنم سے محفــوظ

پہــرے داری میں جـاگنے والـی آنکهـیں جہــنم سے محفــوظ

«حصہ دوم» جز «۱»
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
دو آنکهوں کو جہنم کی آگ نہیں چهوۓ گی، ایک وه آنکھ جو اللہ (تعالی) کے خوف سے روئی ہو، دوسری وه آنکھ جس نے اللہ(تعالی) کے راستے میں پہره دیتے ہوۓ رات گزاری ہو. <ترمذی>
حضرت ابوہریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کہ تین آنکهوں کو [جہنم کی] آگ نہیں چهوۓ گی، وه آنکھ جو اللہ (تعالی) کے راستے میں نکلی ہو [یعنی شہید ہو جاۓ]. اور وه آنکھ جس نے اللہ (تعالی) کے راستے میں پہره دیا ہو اور وه آنکھ جو الله (تعالی) کے خوف سے روئی ہو. <المستدرک>
حضرت ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوه میں تهے، ایک رات ہم ایک بلند جگہ پر رات گزارنے کیلۓ اترے، ہمیں سخت سردی کا سامنا ہوا، یہاں تک کہ میں نے دیکها کہ بعض لوگ زمین پر گڑهے کهود کر اون میں گهس گۓ اور انہوں نے اپنی ڈهالیں گڑهوں کے منہ پر ڈال دیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی یہ حالت دیکهی تو ارشاد فرمایا:
آج رات ہماری پہرے داری کون کرےگا؟ ایسے شخص کو میں خصوصی دعا سے نوازوںگا…..انصار میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول: میں پہره دوں گا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اون سے فرمایا: قریب آؤ، وه قریب تشریف لے آۓ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچها: تم کون ہو؟ انہوں نے اپنا نام بتایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہت سی دعاؤں سے نوازا.
حضرت ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو سنا، تو میں نے عرض کیا: میں وه دوسرا آدمی ہوں جو پہره دیگا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب آجاؤ، میں قریب حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچها: تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا: ابو ریحانہ. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجهے پہلے والے انصاری کی بنسبت کچھ کم دعائیں دیں. پهر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جہنم کی آگ حرام کردی گئ ہے اس آنکھ پر جو اللہ(تعالی) کے خوف سے روئی ہو اور اس آنکھ پر جو اللہ(تعالی) کے راستے میں [پہره دیتے ہوۓ] جاگی ہو.
<مسند احمد و رجالہ ثقات، مصنف ابن ابی شیبہ، نسائی، الطبرانی، مستدرک>
بیہقی کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں:” اور جہنم کی آگ حرام ہے اوس آنکھ پر جو اللہ(تعالی) کی حرام کرده چیزوں سے جهکی ہو یا وه آنکھ جو اللہ(تعالی) کے راستے میں شہید ہوئی ہو.”
<السنن الکبری>
حضرت ابو عمران انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین آنکهوں کو جہنم کی آگ کبهی نہیں جلاۓ گی:- ایک وه آنکھ جو اللہ (تعالی) کے خوف سے روئی ہو. دوسری وه آنکھ جو اللہ (تعالی) کی کتاب پڑهتے ہوۓ جاگی ہو. تیسری وه آنکھ جو اللہ (تعالی) کے راستے میں پہره دیتے ہوۓ جاگی ہو.
<کتاب الجہاد لابن مبارک رحمہ اللہ>
حضرت ابو ہریره رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات [لشکراسلام کی] پہرے داری مجهے اون ہزار دنوں سے زیاده مجبوب ہے جن میں روزانہ روزه رکهوں اور ہر رات کو مسجد حرام یا مسجدنبوی میں قیام کروں. <کتاب الجامع> ابن ابی شیبہ رحمة اللہ عليہ نىے سند_ صحیح کے ساتھ حضرت مکحول رحمة اللہ عليہ سے روایت کی ہے کہ جس شخص نے پہره دیتے ہوۓ رات گزاری یہاں تک کہ صبح ہوگئ تو اس کے گناه جهڑ جاتے ہیں.
<مصنف ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ>
<فضائل_جهاد ص ٣٠٠ تا ٣٠١ >
«بقایا آئندہ….. اِنْ شَـــاءَالله »

مجــاہـدین کی پہـرے داری کـرنے کے فضـــائل کا بیـــان

مجــاہـدین کی پہـرے داری کـرنے کے فضـــائل کا بیـــان

«حصہ اول»
الله تعالی کا ارشادگرامی ہے ◙»”وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ” اور اپنے ہتهیار ساتھ لے لیں. <النساء: ۱۰۲> الله تعالی کا ارشادگرامی ہے:
◙۲»” وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ.”
وه ایسی جگہ چلتے ہیں جو کافروں کے غصہ کو بهڑکاۓ اور یا کافروں سے کوئی چیز چهین لیتے ہیں ہر بات پر اون کے لۓ عمل صالح لکها جاتا ہے، بے شک الله تعالی نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا………<التوبہ: ۱۲۰>
حضرت ابو ہریره رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ہلاک ہو دینار و درہم کا بنده،[یعنی مال کا حریص آدمی]اور [ہلاک ہو] منقش چادر کا حریص. اگر اوسے کچھ دیا جاۓ تو راضی رہتا ہے اور اگر کچھ نہ دیا جاۓ تو ناراض ہوتا ہے. وه سر کے بل گرے(یعنی تباه و برباد ہو جاۓ) اور جب اوسے کانٹا چبهے تو نہ نکالا جاۓ. خوشخبری ہے اوس بنده کے لۓ جو الله (تعالی) کے راستے میں اپنے گهوڑے کی لگام پکڑے ہوۓ ہو، اوس کے سر کے بال پراگنده اور پاؤں غبار آلود ہوں، اوسے اگر محافظ دستے میں رکها جاۓ تو وه محافظ دستے میں رہے اور اگر اوسے لشکر کے آخر میں رکها جاۓ تو لشکر کے آخر میں رہے،[یعنی جہاد میں جس جگہ بهی اوس کی تشکیل ہو وه اس ذمہ داری کو خوب نبهاۓ.] اگر وه اجازت مانگے تو اوسے اجازت نہ ملے اور اگر سفارش کرے تو اوس کی سفارش قبول نہ کی جاۓ .[یعنی ظاہری طور پر اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا، لیکن الله (تعالی) کے ہاں اوس کا مقام بہت بلند ہے] <بخاری>
حضرت عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر میں ایک رات الله (تعالی) کے راستے میں خوف کی حالت میں[اسلامی لشکر کی] پہرے داری کروں تو یہ مجهے سو سواریاں صدقہ کرنے سے زیاده محبوب ہے.
<کتاب الجہاد لابن مبارک رحمہ اللہ>
خوب اچهی طرح جان لیجیۓ کہ جہاد میں مجاہدین اور مسلمانوں کی پہرے داری کرنا اعلی ترین عبادت ہے اور الله تعالی کے قرب کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ رباط کی افضل ترین قسم ہے، چنانچہ مجاہدین کی پہرے داری کرنے والوں کو رباط کے فضائل اور اجر بهی ملتا ہے اور اس کیلۓ مزید فضائل بهی ہیں.[آیۓ! ترتیب سے ان فضائل کو پڑهتے ہیں].

فَضَـــائلِ جِہــــٰاد: سرحدوں پر پہرے داری کے کچھ مزید فضائل

فَضَـــائلِ جِہــــٰاد: سرحدوں پر پہرے داری کے کچھ مزید فضائل

      حضرت ابو امامه  رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بے شک ہر اًمت کیلئے سیاحت ہے اور میری امت کی سیاحت جہاد ہے اور ہر اًمت کی رہبانیت ہے اور میری اًمت کی رہبانیت دشمنوں کی گردنوں ( یعنی سرحدوں پر پہرہ دینا ہے۔

         حضرت عروہ بن رًوَیْم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نَبِىّ کریم ﷺ  کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا: یا رَسُولَ اللہ ! ہم لوگ نئے مسلمان ہوئے ہیں اور ماضی میں ہم بہت گُناہوں اور زِنا (وغیرہ) میں مُبتَلا رہے ہیں، اب ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو گھروں میں بند کر لیں اور مرتے دم تک اللہ (تعالیٰ) کی عبادت کرتے رہیں۔
     راوی فرماتے ہیں کہ رَسُولُ اللہ ﷺ کا چہرہ مبارَک چمکنے لگا اور آپ ﷺ نے فرمایا: عنقریب تم لوگ لشکروں میں نکلوگے، کافر تمہارے ذِمِّىْ بن کر تمہیں خَراج دیں گے اور سَمُندر کے ساحل تمہارے شہر اور مَحل ہونگے، پس جو تم میں سے اس زمانے کو پائے اور پھر کسی شہر یا مَحل میں خود کو عبادت کیلئے مرتے دم تک بند کرنا چاہے تو کرلے۔

حضرت یَزِيْد اَلْعُقَيْلِى رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میری اُمت میں سے کچھ لوگ ایسے ہونگے جن سے سرحدوں کو بھرا جائے گا، [یعنی ان کو پہرے داری کیلئے محاذوں پر بھیجا جائے گا] اور ان سے حقوق لئے جائیں گے، لیکن ان کے حُقوق اُنہیں نہیں دیئے جائیں گے، وہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں ۔ وہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں۔

۲۲۱۰ میلیارد ریال برای جبران خسارات سیل به زیرساخت های آب و خاکی جنوب بلوچستان اختصاص یافت

۱۲۱۰ میلیارد ریال برای جبران خسارات سیل به زیرساخت های آب و خاکی جنوب بلوچستان اختصاص یافت

مدیر آب و خاک سازمان جهادکشاورزی سیستان وبلوچستان گفت:

با توجه به وقوع باران های سیل آسای اسفند ماه سال گذشته و همچنین فروردین امسال خسارات سنگینی به زیر ساخت آب وخاک وارد شد.

حسینعلی رمرودی افزود خوشبختانه با نگاه ویژه دولت به بخش کشاورزی استان سیستان و بلوچستان، تاکنون مبلغ ۱۲۱۰ میلیارد ریال برای جبران خسارات و مرمت و بازسازی پروژه های خسارت دیده ، به بخش آب وخاک سازمان جهادکشاورزی استان اختصاص یافته است .

وی تصریح کرد این اعتبارات صرف مرمت و بازسازی قنوات، مرمت بندسارها، انتقال آب با لوله و مرمت جاده های دسترسی آسیب دیده از سیل خواهد شد

تحریک طالبان پاکستان در ولایت بلوچستان شهر کویته در علاقه کچلاک جهانگیرآباد یک خودروی نظامی را مورد حمله بمب انفجاری قرار دادند که در آن 4 تن کشته و 1 تن دیگر زخمی شدند و خودروی مذکور به طور کامل تخریب شد.

فعلا مردها همگی در جبهه مقاومت ضد صهیونیستها هستند و زنها مانده اند

فعلا مردها همگی در جبهه مقاومت ضد صهیونیستها هستند و زنها مانده اند

شرطه (پولیس عربستان سعودی)باصدای بلند فریاد زد وگفت
صفوف مرد ها از زنان جدا باشد: مردها پیش رو باشندوزنها پشت سر!
عالمی فریاد زد وگفت هیچ فرقی ندارد هر کس هرجا ایستاده می‌شود مشکلی نیست
وگفت مردها همه در غزه هستند وما همه حکم زن را داریم
فرق ما با زنها چیست فعلا
حقا که چنین هست

مگسانی که در مورد جهاد جبهه مقاومت در فلسطین وزوز می کنند

مگسانی که در مورد جهاد جبهه مقاومت در فلسطین وزوز می کنند

بعضی ها عالم و آدم را تکفیر کرده اند با این حجت که توحیدشان صحیح نیست و کُفر به طاغوت ندارند.
الان که مجاهدین غزه دارند در مقابل بدترین دشمن اسلام و مسلمین یعنی یهود و هم پیمانان صلیبیش دارند جهاد میکنند و میجنگند، بحث از ویرانی دیار و سرزمین و آوارگی و مصیبت و کُشته شدن و فقه اولویت و عجله کردن و حکمت نداشتن و مراعات نکردن مصلحت میکنند.
ای افراد نادان و سفیه، مگر جهاد بدون آوارگی و ویرانی و کشته و زخمی شدن و گُرسنگی و مصیبت، امکان دارد؟
مگر در شعب ابی طالب کودکان صحابه از شدت گرسنگی داد و فریادشان بلند نشده بود؟ مگر خداوند در حق مومنین نمیفرماید به حالتی رسیدید که بلغت القلوب الحناجر؟ مگر نمیفرماید: کتب علیکم القتال و هو کُره لکم؟
کُفر به طاغوتی بزرگتر از جهاد هم مگر وجود دارد؟ آن هم طاغوتی مثل دولت سکولار صهیونیستها و هم پیمان سکولارش آمریکا؟
شما مَرد نیستید. تُقیه و مخفی کاری را کنار بگذارید و صراحتا بگوید نه حماس و نه قسام و نه هیچکدام از مسلمانان مجاهد فلسطین را مسلمان نمیدانید و همگی کافر و مرتدند. چرا جرأت این را ندارید که به صراحت این را بیان کنید؟ میترسید امت اسلام آبرویتان را ببرند البته اگر برایتان آبرویی باقی مانده باشد.
اصلا شما بر روی کُره خاکی هیچ نوع جهادی را مشروع نمیدانید و هیچ کسی را مجاهد به حساب نمی آورید و همه را مُرتد میدانید.
برای همین هیچ ولائی برای اهل ایمان ندارید.
برخی اوقات گریه ها و تأسف خوردنهایتان صوری و از نوع اشک تمساح است.
شمایی که جرأت ندارید در برابر طاغوت دیار خودتان لام تا کام حرف بزنید و بلکه خیلی اوقات به توجیه کُفریات و ظلمهایش میپردازید و به آن مشروعیت میدهید، بهتر است در مقابل جهاد مبارک مردم فلسطین و دیگر سرزمینهای اسلامی، خفه خون بگیرید.
هر چند کسی برای حرفهای شما پشیزی ارزش قائل نیست. فقط موجبات تأسف و درد و اعصاب خوردی هستید.
مثل مگسی که اطراف انسان میچرخد و اعصابش را خورد میکند. در همین حد موذی. در همین حد ضد حال و به درد نخور.

اخرسوا من فضلکم..

شش نظامی حکومت سکولار پاکستان در انفجاری توسط مجاهدین شریعت گرا در خیبرپختونخواه کشته شدند

شش نظامی حکومت سکولار پاکستان در انفجاری توسط مجاهدین شریعت گرا در خیبرپختونخواه کشته شدند

در انفجاری که لحظاتی پیش بر یک موتر حامل نظامیان پاکستانی در منطقه لکی مروت خیبرپختونخواه رخ داده بود گفته می شود 6 نظامی پاکستانی به شمول یک افسر این کشور در این انفجار کشته شده است.
همچنین براساس گزارش‌ها مجاهدین مسلح شب گذشته بر یک پاسگاه نظامیان سکولار پاکستانی در منطقه باجور خیبرپختونخواه حمله کردند. از تلفات این رویداد گزارش در دسترس قرار نگرفته است. پولیس حکومت سکولار پاکستان نیز این رویداد را تائید کرده است.

صهیونیستهای سکولار ۴ اسیر را آزاد کردند اما…..

صهیونیستهای سکولار ۴ اسیر را آزاد کردند اما…..

به قلم: أحمد سمیر قنيطة

اینکه 4 اسیر پس از 8 ماه جنگ نابودی در بخشی که مساحت آن بیش از 365 کیلومتر مربع نیست، توسط قوی ترین ارتش های منطقه و با پشتیبانی همه ظرفیت های امنیتی و اطلاعاتی ناتو آزاد شوند، چیزی است که با استانداردهای انسانی و مادی انتظار می رود.

آنچه انتظار نمی رفت این بود که مجاهدین به یاری و لطف خداوند متعال این تعداد زیاد أسرای صهیونیست را به مدت 8 ماه در مساحت محدودی شبیه به محله یا خیابان یکی از شهرهای بزرگ در جهان مخفی کنند.

اطلاعات دشمن و اطلاعات متحدانش، آمریکایی ها، انگلیسی ها، فرانسوی ها، آلمانی ها و سایر نیروهای شیطانی؛ آنها تمام توان اطلاعاتی و امنیتی خود را بکار گرفتند و صدها ساعت پروازهای جاسوسی را در آسمان غزه محاصره شده انجام دادند تا به أسرا و رهبران مقاومت برسند، اما در طول چند ماه به شدت شکست خوردند.

اینکه این تلاش – بنا به ادعای دشمن – در آزادسازی 4 اسیر از حدود 130 اسیر موفقیت آمیز بوده، پس از بمباران مستمر غزه در طول 8 ماه، دستاورد نظامی قابل ارتقای محسوب نمی شود. از این رو، تمام سخنان و طبل‌هایی که از صهیونیست‌ها و دژخیمان می‌شنوید، چیزی جز بیان ناامیدی و ناتوانی آنان و تلاش برای تخلیه بخشی از خشم و عصبانیت آنان در برابر ایستادگی مردم و مقاومت ما نیست.

در اینجا باید معیار روشنی را که توسط گردان های القسام برای رسیدگی به مسئله أسیران تعیین شده است، به یاد بیاوریم که توسط سخنگوی القسام “أبوعبيدة” بیان شد: ما تأکید می کنیم که قیمتی که در ازای پنج یا ده أسیر زنده می گیریم همان قیمتی است که در ازای همه أسیران می گیریم.

تقبل الله الشهداء و شافى الجرحى و عوّض شعبنا و أهلنا خيراً، و كل ما يقدّره الله فيه الخير، و إن جهلنا حكمته بمحدودية علمنا و فهمنا لمراد الله وتدبيره.

اهل غزه؛ جماعت پیشتازی که سید قطب انتظار ظهورشان را می‌کشید


اهل غزه؛ جماعت پیشتازی که سید قطب انتظار ظهورشان را می‌کشید.

سید قطب در کتاب معروفش “نشانه های راه” که از دلایل اصلی اعدامش نیز بود، می‌گوید:

«من کتاب “نشانه‌های راه” را برای آن جماعت پیشتازی نوشته‌ام که انتظار ظهورش می‌رود.» [1]


امروز با نگاه کردن به اهل غزه، می‌بینیم که صفات آن جماعت پیشتاز، در آن‌ها نمایان شده است.

نشانه‌های راهی که می‌توان از قرآن و سنت آن‌ها را یافت؛ اهل غزه، در حال پیمودن ابتدای این راهِ سخت و جگرسوز هستند.
آن‌ها با صبرِ ایمانی و مقاومت بی‌نظیر، بیشتر اهل زمین را نسبت به جاهلیت مدرن، آگاهانیده‌اند. جاهلیتی که بر تمام بشریت، سایهٔ سنگینی انداخته است و جماعتی پیشتاز نیاز بود تا اینگونه با فدا کردن جان و مال خود، صورت واقعی این جاهلیت را به مردمان نشان دهند و حیله‌های ده‌ها سالهٔ آن‌ها را برملا کنند. می‌توان صهیونیسم را نماینده و عصارهٔ این جاهلیت دانست چون رد پای «یهود» در تمام جاهلیت‌های مدرن بشر، دیده می‌شود.

اسلام و عقیدهٔ راسخ ایمانی، در واقعیت و میدان عمل، آموخته و نمایان می‌شود و صرفا تئوری‌ها و نظریات ذهنی نیست و حقا که اهل غزه، چنین بوده‌اند.

بله، اهل غزه، آن جماعت پیشتازی هستند که پرچم امت محمد ﷺ را بر دوش‌های خستهٔ خود حمل و با چنگ و دندان، آن را حفظ کرده‌اند و اینگونه آن‌ها جور کف روی سیل [2] را می‌کشند.

اهل غزه، بزرگ و کوچکشان با قرآن همدم شده‌اند و آن‌ها اسلام را زندگی می‌کنند و ما صرفا با دیدن بخش کوچکی از مقاومت و صبرشان، ناخودآگاه یاد رشادت‌های مسلمانان صدر اسلام می‌افتیم.

یک شهر یا جماعت که در میدان واقع، اسلام را زندگی کنند تاثیرشان از هزاران سخنرانی و مقاله و خطابه، بیشتر و عمیق‌تر است (اگرچه هرکدام در جای خود ارزشمند هستند) و اهل غزه که تنها یک شهر در این جهان پهناورند، چنین نقشی را بر عهده گرفته و اینگونه با صبر و ثباتشان، جهانیان را مجذوب خود کرده‌اند.

«اما اسلام نمی‌تواند نقش خود را ایفا نماید مگر اینکه در یک جامعه یعنی در یک امت، تجسم پیدا کند. چون بشریت -به‌ویژه در این روزگار- به عقیده‌ای محض که مصداق واقعی آن را در یک زندگیِ مشهود نبیند، گوش فرا نمی‌دهد… امت مسلمان هم قرن‌های بسیاری است که از «وجود» ساقط شده است… چون امت مسلمان، «سرزمینی» نیست که اسلام در آن زیسته باشد و یا «قومی» که اجدادشان در یکی از اعصار تاریخ براساس نظام اسلامی زیسته باشند… مقصود از «امت مسلمان» جماعتی از انسان‌ها است که حیات و بینش‌ها و اوضاع و نظام‌ها و ارزش‌ها و موازین آن‌ها تماما از برنامهٔ اسلام برجوشد.» [3]




مجاهدان غزه، این مقاومت و ایثار را برای شنیدن مدح و ستایش از سوی ما، نکرده‌اند چون آن‌ها با پروردگارشان عهدی بسته‌اند که بر آن پایبندند و مخالفتِ مخالفانشان هم ضرری به آن‌ها نمی­‌رساند، به جز سختی‌هایی که در این راه دچار آن می‌شوند. [4]

پی‌نوشت‌ها:
[1] نشانه‌های راه، سید قطب، ترجمه محمود محمودی، ص10.
[2] اشاره به حدیث پیامبر ﷺ، بنگرید به: (سنن أبی داود، ج4، ص111 ح4297 -: حدیث حسن.)
[3] نشانه‌های راه، سید قطب، ترجمه محمود محمودی، ص45.
[4] اشاره به حدیث پیامبر ﷺ که فرمودند: «همواره گروهی از امتم حق را آشکار کرده و بر دشمنانشان پیروز هستند. و مخالفت دیگران به آن‌ها ضرری نرسانده تا اینکه قیامت برپا شده و آن‌ها همچنان بر حق هستند. گفتند ای رسول الله، آنان کجا هستند؟ ایشان فرمودند: در بیت‌المقدس و اطراف آنجا.» (مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج36، ص656 ح22320-: حدیث حَسَن.)