امر بالمعروف کرنے والے کے لیے ضروری اوصاف

امر بالمعروف کرنے والے کے لیے ضروری اوصاف:

امر بالمعروف (نیکی کا حکم دینا) دین اسلام میں ایک اہم فریضہ ہے۔ ہر دور میں بزرگوں نے امر بالمعروف کے فریضہ کو بخوبی نبھایا ہے اور تاریخ عالم میں اس کے مثبت نتائج بھی الحمدللہ سامنے آئے ہیں۔ آج بھی اہل حق اس فریضے کو دعوۃ التبلیغ، درس و تدریس، تالیف و تصنیف، خطابت و تقریر کی صورت میں نبھا رہے ہیں۔ تاہم، اس کام کو مؤثر طریقے سے انجام دینے کے لیے چند اوصاف کا ہونا ضروری ہے، جو کہ اساطین علم نے بیان فرمائے ہیں۔ چنانچہ فتاوی ہندیہ میں اس حوالے سے پانچ اہم اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

1. علم


امر بالمعروف کے لیے سب سے پہلی چیز علم ہے۔ جاہل شخص امر بالمعروف کو صحیح طریقے سے نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے پاس درست معلومات اور احکام نہیں ہوتے۔ علم کے بغیر امر بالمعروف کرنا دوسروں کو گمراہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ مرزا غامدی اور دیگر نام نہاد اسکالرز کی مثال لیجیے۔

2. نیت


دوسری اہم چیز نیت ہے۔ امر بالمعروف کرنے والے کی نیت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کی ہونی چاہیے۔ اگر نیت دنیاوی فائدے یا شہرت حاصل کرنے کی ہو تو اس کا عمل اللہ کی نظر میں مقبول نہیں ہوگا۔ آج کل کے نام نہاد مناظرین کی مثال لیجیے۔

3. شفقت


تیسری چیز شفقت ہے۔ مامور (جسے حکم دیا جا رہا ہو) پر شفقت اور نرمی سے حکم دینا ضروری ہے۔ سختی اور بد اخلاقی سے امر بالمعروف کرنا مؤثر نہیں ہوتا بلکہ اس سے الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔

4. صبر و تحمل


چوتھی چیز صبر و تحمل ہے۔ امر بالمعروف کرنے والے کو صبر اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لوگوں کی طرف سے ملنے والے ردعمل کو صبر اور تحمل سے برداشت کرنا چاہیے۔ یہ صفت تبلیغی حضرات میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اگرچہ بعض دفعہ اس کے خلاف بھی کرنا چاہیے اگر کوئی حد سے زیادہ تجاوز کر جائے۔

5. عمل


پانچویں چیز عمل ہے۔ جو شخص دوسروں کو نیکی کا حکم دے رہا ہو، اسے خود بھی اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان {لم تقولون ما لا تفعلون} (تم کیوں کہتے ہو وہ جو خود نہیں کرتے) کے تحت نہ آئے۔ خود عمل کیے بغیر دوسروں کو نصیحت کرنا بے اثر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود نصیحت کرنا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

عوام الناس کے لیے قاضی مفتی یا مشہور عالم کو امر بالمعروف کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ایک تو یہ بے ادبی ہے۔ دوسرا بسا اوقات مفتی یا قاضی کسی مصلحت کی وجہ سے غیر اولی کام کرتا ہے جو کہ عامی (عام شخص) نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے امر بالمعروف کا فریضہ ادا کرتے وقت ان اوصاف اور آداب کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ یہ کام زیادہ سے زیادہ مؤثر طریقے سے کیا جا سکے۔

ماخوذ از فتاوی ہندیہ کتاب الکراھیۃ الباب السابع عشر۔

امان محسود

جہادِ پاکستان؛ امام ابو حنیفہ کی فتویٰ کے تناظر میں

جہادِ پاکستان؛ امام ابو حنیفہ کی فتویٰ کے تناظر میں

تحریر: سیف اللہ احرار

✓ کیا پاکستانی حکام کے خلاف خروج جائز ہے؟
✓ کیا مفسد اور بے دین حکمران کے خلاف جہاد فرض عین ہوتا ہے!؟

145 ہجری کا واقعہ ہے کہ خلفائے بنو عباس کے فرمانروا منصور عباسی کے خلاف بصرہ وغیرہ میں محمد نفس زکیہ اور ابراہیم نفس مرضیہ دو بھائیوں نے تنفیذ شریعت اور اقامت دین حقہ کی غرض سے مسلح جہاد کا اعلان کیا ان حضرات کو کئی شہروں میں نمایاں کامیابی بھی حاصل ہوئی جہاں پر یہ حضرات قابض ہو جاتے تھے وہاں مکمل طور پر شریعت نافذ کرتے تھے، جہاں دیگر علماء کرام ان کی حامی تھے وہاں امام ابوحنیفہ اس تحریک کے روح رواں تھے ۔

الیافعی رح نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ابراہیم کیلئے لوگوں کو علی الاعلان جہاد پر ابھارتے تھے، کہتے تھے کہ ان کے ساتھ ہو کر حکومت کا مقابلہ کرو، امام زفر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم کی زمانے میں امام ابوحنیفہ انکی حمایت میں بڑی شدومد کے ساتھ بولنے لگے تھے ۔
(امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، صفحہ: 343)

اس کا مطلب یہی ہوا کہ امام ابوحنیفہ حکومت کے انتقام اور داروگیر سے قطعاً بے پرواہ ہو کر علانیہ ابراہیم کی حمایت کا دم بھرنے لگے تھے اور نہ صرف خود بلکہ جو بھی ان کے زیر اثر تھا اس کو ابراہیم کی حمایت پر آمادہ کرتے تھے اور امر کرتے تھے، “امر” کے اصطلاحی معنیٰ لے لئے جائیں تو اس کے معنی یہ ہوں گی کہ ان کا ساتھ دے کر حکومت ظالمہ کے مقابلے کو فرض قرار دیتے تھے وہ بھی کیسا فرض!؟
(دعوت جہاد، لشیخ فضل محمد، صفحہ: 187)

ذرا دیکھئے کہ کوفہ کے مشہور محدث ابراہیم بن سوید کا بیان ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ابراہیم بن عبداللہ کے خروج کے زمانے میں پوچھا: کہ آج جو حج فرض ہے اس کے بعد آپ کا کیا خیال ہے اس شخص یعنی ابراہیم کی رفاقت میں حکومت سے مقابلہ زیادہ ثواب کا کام ہے!؟
ابراہیم بن سوید کہتے ہیں کہ غور کے ساتھ میں نے دیکھا کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کہہ رہے تھے اس جنگ میں شرکت پچاس حج سے زیادہ افضل ہے ۔
(امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، مؤلفہ مناظر احسن گیلانی، صفحہ: 343)

اس کے واقعے کی تحقیق میں شیخ فضل محمد صاحب رح اپنے کتاب دعوت جہاد میں کچھ اسطرح لکھا ہیں:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اس فتوے سے ایک مسئلہ تو یہ حل ہوگیا یا کہ نفلی 50 حج سے جہاد افضل عبادت ہے دوسرا یہ مسئلہ حل ہوا کہ نفاذ شریعت کے لیے مسلح جہاد کرنا اور اسلحہ اٹھانا مسلمانوں پر فرض  ہے ۔ اگر چہ یہ حکومتِ وقت اسلام کے نام پر قائم کیوں نہ ہو ۔

دیکھو منصور عباسی آخر مسلمان تھا اور آج کل کے حکمرانوں سے بدرجہا بہتر مسلمان تھا، مگر نفاذ شریعت کے لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ان کے ساتھ لڑنے کو فرض قرار دیا اور جو اس میں مارا جائے ان کو شہید قرار دیا ۔
چنانچہ مصیصہ چھاؤنی کے ایک کمانڈر کا بھائی ابراہیم کے ساتھ ہو کر حکومت کے فوجیوں کے ہاتھوں سے مارا گیا، اس کا بھائی مصیصہ سے آیا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملا اور کہا کہ میرے بھائی کو اپنے ابھارا اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا، یہ آپ نے بہت برا کام کیا کیا ۔
امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: میں تو چاہتا تھا کہ کفار کے مقابلے سے دستکش ہو کر تم یہاں آجاتے اور تیرا بھائی جہاں شہید ہوا تھا وہاں پر تم بھی شہید ہو جاتے تو اس سے بہتر ہوتا جو تم کفار کے مقابلہ میں مصیصہ میں تھے اور تم جو جو جہاد کر رہے تھے اس سے مجھے یہ جہاد زیادہ پسند ہے ۔ جس میں تیرا بھائی گیا ہے ۔
(دعوت جہاد، لشیخ فضل محمد، 188)

اس فتوی سے تیسرا مسئلہ یہ حل اور واضح ہو گیا کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے مسلح جہاد کرنا ضروری ہے اور ملاکنڈ کی غیور مسلمانوں نے جو نفاذِ شریعت کے لیے جانیں قربان کی ہے وہ سچے شہید ہیں ۔

(دعوت جہاد، لشیخ فضل محمد، 188 )

مہمند ایجنسی میں مجاہدین کا زبردست مقابلہ، سی ٹی ڈی کا شرمناک عمل

مہمند ایجنسی میں مجاہدین کا زبردست مقابلہ، سی ٹی ڈی کا شرمناک عمل

گزشتہ روز دوپہر کے وقت ولایت پشاور، مہمند ایجنسی کی تحصیل انبار کے علاقے گمبتئی میں سی ٹی ڈی اور خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے ملکر مجاہدین کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا جسے بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد مزید سینکڑوں نفری بلوائی گئی ـ

تیس گھنٹوں سے زائد جاری اس معرکے میں سی ٹی ڈی کے کم از کم دو اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، جبکہ ایک کلاشنکوف بھی مجاہدین نے حاصل کی ـ

مجاہدین نے شجاعت کی داستان رقم کرتے ہوئے اس  جنگ کو طول دیا اور بدنام زمانہ سی ٹی ڈی انہیں گرفتار یا قتل کرنے میں ناکام رہی اور بالآخر ایکسویٹر مشین سے مجاہدین کی پناہ گاہ غار پر مٹی ڈال کر یونہی چھوڑکر ایک بار پھر شرمناک تاریخ رقم کردی ـ

اس جنگ میں ہمارے تین مجاہدین شہید ہوئے اور باقی تمام ساتھی محفوظ ٹھکانوں تک پہنچ گئے الحمدللہ ـ

محمدخراسانی
ترجمان: تحریک طالبان پاکستان

20/ محرم الحرام /1446ھـ ق
26/ جولائی / 2024

جدید امریکی دفاعی طیارے بنوں کے اوپر اڑتے رہے کئی امریکی فوجی لے کر

جدید امریکی دفاعی طیارے بنوں کے اوپر اڑتے رہے کئی امریکی فوجی لے کر

سوشل میڈیا پہ گردش کرنے والی خبروں کے مطابق ناپاک فوج و امریکی جنوبی وزیرستان کے علاقے زرمیلنہ میں بڑا فوجی اڈا بنا رہے ہیں  امارت اسلامی افغانستان و تحریک طالبان پاکستان کے  مجاہدین کے خلاف ؛ اللہ تعالیٰ ان کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملائے !!

عربیت اور اسلام کے یمن میں ہمارے بھائیوں کو سلام

عربیت اور اسلام کے یمن میں ہمارے بھائیوں کو سلام

وہ لوگ جو ہمارے لوگوں کی پکار اور ہماری مزاحمت کی پکار سے متاثر ہوئے، اس لیے وہ اپنے معمول کے عرب بھائی چارے کے ساتھ اٹھے، جغرافیہ کی پابندیوں کو توڑ دیا، اور پوری قوت اور عزم کے ساتھ غزہ کی حمایت اور حمایت کر رہے ہیں۔

ابو_عبیدہ 2023 نومبر 20

لال مسجد آپریشن –  اسباب و حقائق

لال مسجد آپریشن –  اسباب و حقائق

اسباب

1.  امریکہ کی خوشی کے لیے مساجد کی شہادت

2.  اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں نفاذِ اسلام سے روگردانی

3.  اپنے بے گناہ مسلمان پاکستانی بھائیوں کو لاپتہ کرنا

4.  فحاشی و عریانی کا فروغ

5.  اپنے بے گناہ مسلمان بھائیوں کو کافر ملک امریکہ کے حوالے کرنا

6.  اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف ایک کافر ملک امریکہ کی  جنگ میں شامل ہونا

حقائق

1.  کیا علامہ عبدالرشید غازیؒ مسلح تصادم چاہتے تھے یا بات چیت

2.  کیا لال مسجد آپریشن میں کوئی عورت یا بچی شہید نہیں ہوئی

3.  چلڈرن لائبریری پر قبضے کا مقصد احتجاج تھا

4.  جہاں بچے بچیاں اور خواتین ہوں وہاں ریسکیو آپریشن کیا جاتا ہے یا ملٹری آپریشن

5.  کیا جو کچھ میڈیا پر دکھایا گیا وہ سچ تھا

6.  کیا مذاکرات کو لال مسجد والوں نے سبوتاژ کیا

7.  کیا امریکہ کا ساتھ نہ دینے پر انڈیا پاکستان پر حملہ کر دیتا؟

8.  کیا امریکہ نے پاکستان کو جنگ میں ساتھ نہ دینے پر’پتھر کے دور میں پہنچانے‘ کی دھمکی دی تھی؟

9.  لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں کتنا اسلحہ تھا اور کھانے پینے کا سامان کتنا تھا؟

علامہ عبدالرشید غازیؒ کی شہادت

غازی جام شہادت نوش کر گئے ، آخری وقت تین کلموں کا ورد

غازی جام شہادت نوش کر گئے ، آخری وقت تین کلموں کا ورد

علامہ عبد الرشید غازی نے آخری وقت پہلے تینوں کلموں کا ورد کیا اور کسی کو فرسٹ ایڈ کے لئے اپنے پاس آنے سے روک دیا۔ منگل کے روز غازی عبدالرشید اور ان کے تقریبا ایک درجن جانثاروں کے خلاف آپریشن کرنے والے ایک متحرک اور ذمہ دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے پہلے عبدالرشید غازی کو دائیں ٹانگ پر فائر کر کے سرنڈر کرنے کو کہا جس کے جواب میں انہوں نے فائر کھول دیا جس کے بعد ہم نے جوابا دو میگزینوں کے ذریعے ان پر 36 گولیاں چلائیں جن میں سے اکثر انہیں سامنے کی طرف لگیں جس کے بعد ہم نے انہیں ایک مرتبہ پھر فرسٹ ایڈ کی پیشکش کی جو انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ میرا آخری وقت آگیا ہے میں کسی کی مدد نہیں لوں گا۔ غازی عبدالرشید نے جسم سے رستے ہوئے خون اور لڑکھڑاتے ہوئے پہلے تیسرا پھر دوسرا اور پھر پہلا کلمہ پڑھا اور ہماری طرف سے فرسٹ ایڈ کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ مجھے

ہاتھ مت لگانا میرا آخری وقت آگیا ہے۔

روداد شہادت حافظ عطا محمد شہید رح !

روداد شہادت حافظ عطا محمد شہید رح !

کاتب: محمد اسامہ غازی
جامعہ فریدیہ اسلام آباد

میرے والد حافظ عطا محمد شہید مولانا عبدالعزیز غازی صاحب کے ماموں زاد اور پھوپی زاد بھائی تھے گاؤں میں مدرسہ جامعہ عبداللہ بن غازی کے نظامت انہی کے سپرد تھی
اکثر جب لال مسجد کے حالات خراب ہوتے تو مولانا عبدالعزیز غازی و علامہ عبد الرشید غازی کے حکم پر اسلام آباد آجاتے اور جب حالات نارمل ہوتے تو واپس چلے جاتے
آخری بار جب آپریشن سے کچھ دن پہلے حالات زیادہ خراب ہونے لگے اور آپریشن کے بادل منڈلانے لگے تو انہوں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا اس وقت میری عمر 6 برس تھی
جب انہوں نے گھر والوں سے اجازت چاہی تو سب نے منع کردیا لیکن حضرت والد صاحب جو شوق شہادت سے لبریز تھے وہ کہاں یہ موقع ہاتھ سے جانے دیتے اگلے دن وہ صبح طلوع آفتاب کے وقت بن بتائے گھر سے روانہ ہوئے اور براستہ رحیم یار خان اسلام آباد پہنچ گئے
لال مسجد پہنچ کر انہوں نے گھر میں اطلاع دی کہ میں یہاں پہنچ گیا ہوں
ان کے پہنچنے کے ایک دن بعد ہی لال مسجد کا مکمل محاصرہ کر لیا گیا اور اسلام آباد میں کرفیو نافذ کردی گئی
اس دوران فون کال پر ہم سے رابطے میں رہے
اکثر چاچو نیاز محمد کے موبائل پر کال کرکے ہم سے بات کرتے
آپریشن کے دوران بھی رابطے میں تھے اور فائرنگ کی گھن گرج بھی کال پر سنائی دیتی تھی
علامہ غازی شہیدؒ نے جامعہ سیدہ حفصہ کی کمانڈ میرے والد کے سپرد کی تھی اور لال مسجد کی کمانڈ مفتی انعام اللہ شہیدؒ کے حوالے تھی
علامہ عبد الرشید غازی  خود میڈیا کے ساتھ مصروف رہتے تھے
دورانِ آپریشن والد صاحب کے ساتھ رابطے کی دو ریکارڈنگ ہمارے پاس موجود ہیں
ایک میں اپنے گاؤں کے دوست سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں تین دن سے کچھ نہیں کھایا ابھی ایک جوس کا ڈبہ ملا ہے اگر پینا ہے تو آپ بھی آجائیں یہاں (ازروئے مزاح)
دوسری آڈیو ریکارڈنگ دورانِ مزاحمت کی ہے جس میں وہ مولانا حسان غازی کو تھوڑا پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے ہیں کہ کرالنگ کر کے واپس مورچے کی طرف آجائیں آگے رینجرز والے زیادہ تعداد میں ہیں تو حسان غازی صاحب جواب دیتے ہیں کہ سامنے درختوں پر مجھے حوریں بلا رہی ہیں میں کیسے پیچھے ہٹوں۔
اس کے بعد تقریباً 6 یا 7 جولائی کا دن تھا جب ہم اپنے اوطاق پر دادا جان کے ساتھ والد صاحب سے رابطے کی کوشش کر رہے تھے،والد صاحب سے رابطہ ہوا تو انہوں کہا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے میں نے7 ف مار گرائے ہیں جو جامعہ حفصہ کی طرف پیش قدمی کی کوشش کر رہے تھے اب اگر شہید بھی ہو جاؤں تو کوئی پرواہ نہیں
غالبا اسی دن شام کو والد صاحب نے کال کے بتایا کہ شیر گولی لگنے سے زخمی ہوگیا ہے ان کے لئے خصوصی دعا کریں
شیر سے انکی مراد علامہ غازی عبد الرشید شہیدؒ تھے جنہیں ٹانگ میں گولی لگی تھی
آپریشن کے دوران دادا جان اور چاچو شاہ محمد جوکہ بھائیوں میں سب سے زیادہ والد صاحب سے محبت کرتے تھے بار بار واپس آنے کا کہتے رہے مگر والد صاحب کا یہی جواب ہوتا تھا کہ جنگ سے پیچھے ہٹنا اسلامی اور ہماری بلوچی روایات کے خلاف ہے۔
آخر میں جب مذاکرات کامیابی کی طرف جا رہے تھے تو رات تہجد کے وقت فون کال کر کے ہمیں یہ امید دلائی کہ مذاکرات کامیاب ہونے لگے ہیں اگر زندگی رہی تو کل ان شاء اللہ علامہ عبد الرشید غازی کے ہمراہ ہم گاؤں آجائیں گے
پھر اچانک مذاکرات ناکام ہو گئے اور آپریشن دوبارہ شروع ہو گیا اور دس جولائی کے دن علامہ عبد الرشید غازی مولانا حسان غازی اور میرے والد حافظ عطا محمد جامِ شہادت نوش کر کے رب کے حضور پہنچ گئے
پورے خاندان کی خواہش تھی کہ انکی آخری آرام گاہیں جامعہ فریدیہ ای سیون میں حضرت شہید اسلام مولانا عبد اللہ شہیدؒ کے ساتھ بنائی جائیں لیکن حکومت نہیں مانی
اس کے بعد انہیں اپنے گاوں میں لانے کا فیصلہ کیا گیا اور جامعہ عبد اللہ بن غازی میں پانچ قبریں کھودی گئیں
علامہ عبد الرشید غازی اور انکی والدہ،مولانا حسان غازی مفتی انعام اللہ اور حضرت والد صاحب کی، ان سب شہداء کی تدفین کی تیاری کی گئی لیکن حکومت نے صرف علامہ عبد الرشید غازی شہیدؒ کی میت حوالے کی باقی لاشیں دینے سے انکار کردیا
بعد میں حکومت نے انہیں H-11 قبرستان میں دفن کردیا لیکن دادا جان کو تسلی نہیں ہوئی انہوں نے قبر کھود کے اپنے بیٹے کی شناخت کرنی چاہی تاکہ دل کو تسلی مل سکے کہ انکے لخت جگر واقعی شہید ہو چکے ہیں یا کہیں زندہ گرفتار ہوگئے تاکہ انکی واپسی کی امید رکھی جا سکے
بالآخر بہت ساری قبریں کھولنے کے بعد دادا جان نے والد صاحب کو انکی پنڈلی سے پہچان لیا کیونکہ والد صاحب کے لاشے کا صرف دھڑ موجود تھا سَر نہیں تھا
شہادت کے وقت والد صاحب کی عُمر محض27 سال تھی
اللہ پاک نفاذِ اسلام کے لئے اپنا خون پیش کرنے والے سرفروشوں کی قربانیاں قبول فرمائے پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا فرمائے اور ہمیں انکے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین

گزشتہ روز شہدائے لال مسجد کی قبور پہ فاتحہ پڑھنے کے لئے حاضری ہوئی جہاں 25 سے زائد قبریں ہیں جن میں بیسیوں شہداء مدفون ہیں

گزشتہ روز شہدائے لال مسجد کی قبور پہ فاتحہ پڑھنے کے لئے حاضری ہوئی جہاں 25 سے زائد قبریں ہیں جن میں بیسیوں شہداء مدفون ہیں

✍🏻اسامہ بلوچ

تقریباً ہر قبر میں ایک سے زائد
شہیدوں کو دفنایا گیا ہے اور ان میں بھی دو چار ہیں جو صحیح سالم ہیں باقی اکثر شہداء کی صرف باقیات ہیں سالم جسم کسی کا نہیں
شہدائے لال مسجد کے شہیدوں میں صرف امامِ برحق علامہ عبد الرشید غازی رح کی میت صحیح سلامت دی گئی باقی سب کو بغیر شناخت کے راتوں رات دفنا دیا گیا
بعد ازاں ورثاء کی جانب سے قبروں کی کھدائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تاکہ وہ یہ تسلی کر سکیں کہ ان کے عزیز واقعی شہید ہوچکے ہیں یا پھر کہیں زندہ ہیں جن کی واپسی کا انتظار کیا جائے
قبور کشائی کے دوران ورثا نے صرف شناختی علامات سے اپنے عزیزوں کو پہچانا کیونکہ اکثر کے جسموں پہ تو سر ہی نہیں تھے اور بہت سارے ایسے تھے جن کے صرف ہاتھ پیر سلامت تھے  اور بہت سوں کو فاسفورس سے جلا کر ان کی شناخت ہی مٹا دی گئی  اور کئی شہداء ایسے ہیں جو جامعہ حفصہ کے ملبے تلے مدفون ہیں
وہ شہدا جن کی شناخت ممکن ہوئی ان میں ایک میرے ماموں زاد (کزن)بھائی عطاء محمد شہید ہیں جنہیں ان کے والد نے صرف پنڈلی سے پہچانا اور دوسرے میرے سُسر مفتی انعام اللہ شہیدؒ ہیں جنہیں پہچاننے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں سوائے چند گوشت کے لوتھڑوں کے سو ان کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے کر کے ورثاء کو ان کی قبر دکھا دی گئی
بہت سارے حضرات پھیلائی گئی غلط فہمیوں کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ اس سانحہ میں صرف چند لوگ ہی شہید ہوئے ہیں زیادہ نہیں ہوئے تو وہ حضرات شہداء کی قبروں کا ایک بار دورہ ضرور کرلیں
شہدائے لال مسجد میں سب سے کم عمر شہید جن کی شناخت ہو سکی ان کی عمر صرف سولہ سال ہے
سبحان الله کیا ہی شہادت پائی ہے اس بچے نے کہ جوانی میں قدم رکھتے ہی جنتوں کی اراضی کا مالک بن گیا
جیسے میں نے کہا بہت کم ہیں جن کی شناخت ممکن ہوئی ورنہ ان کے علاوہ کتنے ہی کم عمر معصوم ہیں جن کی شناخت ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی قبروں کا کوئی اتہ پتہ معلوم ہو سکا ان میں میری خالہ اور مولانا عبدالعزیز غازی صاحب کی والدہ بھی ہیں جو آخری وقت میں زخمی حالت میں اپنے کمرے میں موجود تھیں اور ان کی آخری بات علامہ عبد الرشید غازی شہیدؒ سے ہوئی اس کے بعد نہ تو کسی نے انہیں دیکھا اور نہ ہی انکی قبر کا پتہ چل سکا کہ وہ کہاں مدفون ہیں
وطنِ عزیز میں نفاذِ اسلام کا مطالبہ کرنے والوں پر ظلم و سفاکیت کی ایک طویل داستان ہے جو صحرائے کربلاء میں برپا کیئے گئے بربریت کی یاد دلاتی ہے !

دین دار مسلمانوں کی اکثریت کے ایمان اور بندگی کا حال

دین دار مسلمانوں کی اکثریت کے ایمان اور بندگی کا حال

مفتی مختار الدین شاہ صاحب


دین دار مسلمانوں کی اکثریت کو دیکھیں تو یہی نظر آئے گا کہ نماز،روزہ اور ذکر و عبادت کے دوران تو پورے خلوص کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف متوجہ نظر آتے ہیں لیکن زندگی کے دوسری شعبوں مثلا معاملات کو دیکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ وہ اللہ تعالی کے بجائے دوسروں کے قانون اور سرکشوں کی تہذیب کی طرف پوری طرح متوجہ ہیں۔

2 . مسلمانوں میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جنہیں یہ بات ذہن نشین ہے کہ اسلام اور بندگی صرف قلبی حسنِ نیت کی چیز ہے یا وہ صرف اللہ تعالی اور اس کے بندے کے درمیان تعلق کا نام ہے، انسان کے عملی برتاؤ، معاشرت اور معاملات سے اس کا سرے سے کوئی واسطہ ہی نہیں حلانکہ جس کا دل ہمہ وقت اللہ تعالی کے ساتھ مربوط ہو اس کا لازمی نتیجہ تو یہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں پھونک پھونک کر قدم رکھے، اس کا ہر قول و فعل اور ہر ارادہ اللہ تعالی کی مرضیات اور ان کے تعلیمات کے مطابق ہو لیکن کیا کیا جائے کہ اس غلط رجحان نے مسلمانوں کی زندگی میں نکما بنا کر اللہ تعالی کی بندگی سے دور ہٹا کر رکھ دیا ہے۔