امر بالمعروف کرنے والے کے لیے ضروری اوصاف:
امر بالمعروف (نیکی کا حکم دینا) دین اسلام میں ایک اہم فریضہ ہے۔ ہر دور میں بزرگوں نے امر بالمعروف کے فریضہ کو بخوبی نبھایا ہے اور تاریخ عالم میں اس کے مثبت نتائج بھی الحمدللہ سامنے آئے ہیں۔ آج بھی اہل حق اس فریضے کو دعوۃ التبلیغ، درس و تدریس، تالیف و تصنیف، خطابت و تقریر کی صورت میں نبھا رہے ہیں۔ تاہم، اس کام کو مؤثر طریقے سے انجام دینے کے لیے چند اوصاف کا ہونا ضروری ہے، جو کہ اساطین علم نے بیان فرمائے ہیں۔ چنانچہ فتاوی ہندیہ میں اس حوالے سے پانچ اہم اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
1. علم
امر بالمعروف کے لیے سب سے پہلی چیز علم ہے۔ جاہل شخص امر بالمعروف کو صحیح طریقے سے نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے پاس درست معلومات اور احکام نہیں ہوتے۔ علم کے بغیر امر بالمعروف کرنا دوسروں کو گمراہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ مرزا غامدی اور دیگر نام نہاد اسکالرز کی مثال لیجیے۔
2. نیت
دوسری اہم چیز نیت ہے۔ امر بالمعروف کرنے والے کی نیت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کی ہونی چاہیے۔ اگر نیت دنیاوی فائدے یا شہرت حاصل کرنے کی ہو تو اس کا عمل اللہ کی نظر میں مقبول نہیں ہوگا۔ آج کل کے نام نہاد مناظرین کی مثال لیجیے۔
3. شفقت
تیسری چیز شفقت ہے۔ مامور (جسے حکم دیا جا رہا ہو) پر شفقت اور نرمی سے حکم دینا ضروری ہے۔ سختی اور بد اخلاقی سے امر بالمعروف کرنا مؤثر نہیں ہوتا بلکہ اس سے الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔
4. صبر و تحمل
چوتھی چیز صبر و تحمل ہے۔ امر بالمعروف کرنے والے کو صبر اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لوگوں کی طرف سے ملنے والے ردعمل کو صبر اور تحمل سے برداشت کرنا چاہیے۔ یہ صفت تبلیغی حضرات میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اگرچہ بعض دفعہ اس کے خلاف بھی کرنا چاہیے اگر کوئی حد سے زیادہ تجاوز کر جائے۔
5. عمل
پانچویں چیز عمل ہے۔ جو شخص دوسروں کو نیکی کا حکم دے رہا ہو، اسے خود بھی اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان {لم تقولون ما لا تفعلون} (تم کیوں کہتے ہو وہ جو خود نہیں کرتے) کے تحت نہ آئے۔ خود عمل کیے بغیر دوسروں کو نصیحت کرنا بے اثر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود نصیحت کرنا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
عوام الناس کے لیے قاضی مفتی یا مشہور عالم کو امر بالمعروف کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ایک تو یہ بے ادبی ہے۔ دوسرا بسا اوقات مفتی یا قاضی کسی مصلحت کی وجہ سے غیر اولی کام کرتا ہے جو کہ عامی (عام شخص) نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے امر بالمعروف کا فریضہ ادا کرتے وقت ان اوصاف اور آداب کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ یہ کام زیادہ سے زیادہ مؤثر طریقے سے کیا جا سکے۔
ماخوذ از فتاوی ہندیہ کتاب الکراھیۃ الباب السابع عشر۔
امان محسود