جہادِ پاکستان؛ امام ابو حنیفہ کی فتویٰ کے تناظر میں

جہادِ پاکستان؛ امام ابو حنیفہ کی فتویٰ کے تناظر میں

تحریر: سیف اللہ احرار

✓ کیا پاکستانی حکام کے خلاف خروج جائز ہے؟
✓ کیا مفسد اور بے دین حکمران کے خلاف جہاد فرض عین ہوتا ہے!؟

145 ہجری کا واقعہ ہے کہ خلفائے بنو عباس کے فرمانروا منصور عباسی کے خلاف بصرہ وغیرہ میں محمد نفس زکیہ اور ابراہیم نفس مرضیہ دو بھائیوں نے تنفیذ شریعت اور اقامت دین حقہ کی غرض سے مسلح جہاد کا اعلان کیا ان حضرات کو کئی شہروں میں نمایاں کامیابی بھی حاصل ہوئی جہاں پر یہ حضرات قابض ہو جاتے تھے وہاں مکمل طور پر شریعت نافذ کرتے تھے، جہاں دیگر علماء کرام ان کی حامی تھے وہاں امام ابوحنیفہ اس تحریک کے روح رواں تھے ۔

الیافعی رح نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ابراہیم کیلئے لوگوں کو علی الاعلان جہاد پر ابھارتے تھے، کہتے تھے کہ ان کے ساتھ ہو کر حکومت کا مقابلہ کرو، امام زفر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم کی زمانے میں امام ابوحنیفہ انکی حمایت میں بڑی شدومد کے ساتھ بولنے لگے تھے ۔
(امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، صفحہ: 343)

اس کا مطلب یہی ہوا کہ امام ابوحنیفہ حکومت کے انتقام اور داروگیر سے قطعاً بے پرواہ ہو کر علانیہ ابراہیم کی حمایت کا دم بھرنے لگے تھے اور نہ صرف خود بلکہ جو بھی ان کے زیر اثر تھا اس کو ابراہیم کی حمایت پر آمادہ کرتے تھے اور امر کرتے تھے، “امر” کے اصطلاحی معنیٰ لے لئے جائیں تو اس کے معنی یہ ہوں گی کہ ان کا ساتھ دے کر حکومت ظالمہ کے مقابلے کو فرض قرار دیتے تھے وہ بھی کیسا فرض!؟
(دعوت جہاد، لشیخ فضل محمد، صفحہ: 187)

ذرا دیکھئے کہ کوفہ کے مشہور محدث ابراہیم بن سوید کا بیان ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ابراہیم بن عبداللہ کے خروج کے زمانے میں پوچھا: کہ آج جو حج فرض ہے اس کے بعد آپ کا کیا خیال ہے اس شخص یعنی ابراہیم کی رفاقت میں حکومت سے مقابلہ زیادہ ثواب کا کام ہے!؟
ابراہیم بن سوید کہتے ہیں کہ غور کے ساتھ میں نے دیکھا کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کہہ رہے تھے اس جنگ میں شرکت پچاس حج سے زیادہ افضل ہے ۔
(امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی، مؤلفہ مناظر احسن گیلانی، صفحہ: 343)

اس کے واقعے کی تحقیق میں شیخ فضل محمد صاحب رح اپنے کتاب دعوت جہاد میں کچھ اسطرح لکھا ہیں:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اس فتوے سے ایک مسئلہ تو یہ حل ہوگیا یا کہ نفلی 50 حج سے جہاد افضل عبادت ہے دوسرا یہ مسئلہ حل ہوا کہ نفاذ شریعت کے لیے مسلح جہاد کرنا اور اسلحہ اٹھانا مسلمانوں پر فرض  ہے ۔ اگر چہ یہ حکومتِ وقت اسلام کے نام پر قائم کیوں نہ ہو ۔

دیکھو منصور عباسی آخر مسلمان تھا اور آج کل کے حکمرانوں سے بدرجہا بہتر مسلمان تھا، مگر نفاذ شریعت کے لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ان کے ساتھ لڑنے کو فرض قرار دیا اور جو اس میں مارا جائے ان کو شہید قرار دیا ۔
چنانچہ مصیصہ چھاؤنی کے ایک کمانڈر کا بھائی ابراہیم کے ساتھ ہو کر حکومت کے فوجیوں کے ہاتھوں سے مارا گیا، اس کا بھائی مصیصہ سے آیا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملا اور کہا کہ میرے بھائی کو اپنے ابھارا اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا، یہ آپ نے بہت برا کام کیا کیا ۔
امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: میں تو چاہتا تھا کہ کفار کے مقابلے سے دستکش ہو کر تم یہاں آجاتے اور تیرا بھائی جہاں شہید ہوا تھا وہاں پر تم بھی شہید ہو جاتے تو اس سے بہتر ہوتا جو تم کفار کے مقابلہ میں مصیصہ میں تھے اور تم جو جو جہاد کر رہے تھے اس سے مجھے یہ جہاد زیادہ پسند ہے ۔ جس میں تیرا بھائی گیا ہے ۔
(دعوت جہاد، لشیخ فضل محمد، 188)

اس فتوی سے تیسرا مسئلہ یہ حل اور واضح ہو گیا کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے مسلح جہاد کرنا ضروری ہے اور ملاکنڈ کی غیور مسلمانوں نے جو نفاذِ شریعت کے لیے جانیں قربان کی ہے وہ سچے شہید ہیں ۔

(دعوت جہاد، لشیخ فضل محمد، 188 )

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *