گزشتہ روز شہدائے لال مسجد کی قبور پہ فاتحہ پڑھنے کے لئے حاضری ہوئی جہاں 25 سے زائد قبریں ہیں جن میں بیسیوں شہداء مدفون ہیں

گزشتہ روز شہدائے لال مسجد کی قبور پہ فاتحہ پڑھنے کے لئے حاضری ہوئی جہاں 25 سے زائد قبریں ہیں جن میں بیسیوں شہداء مدفون ہیں

✍🏻اسامہ بلوچ

تقریباً ہر قبر میں ایک سے زائد
شہیدوں کو دفنایا گیا ہے اور ان میں بھی دو چار ہیں جو صحیح سالم ہیں باقی اکثر شہداء کی صرف باقیات ہیں سالم جسم کسی کا نہیں
شہدائے لال مسجد کے شہیدوں میں صرف امامِ برحق علامہ عبد الرشید غازی رح کی میت صحیح سلامت دی گئی باقی سب کو بغیر شناخت کے راتوں رات دفنا دیا گیا
بعد ازاں ورثاء کی جانب سے قبروں کی کھدائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تاکہ وہ یہ تسلی کر سکیں کہ ان کے عزیز واقعی شہید ہوچکے ہیں یا پھر کہیں زندہ ہیں جن کی واپسی کا انتظار کیا جائے
قبور کشائی کے دوران ورثا نے صرف شناختی علامات سے اپنے عزیزوں کو پہچانا کیونکہ اکثر کے جسموں پہ تو سر ہی نہیں تھے اور بہت سارے ایسے تھے جن کے صرف ہاتھ پیر سلامت تھے  اور بہت سوں کو فاسفورس سے جلا کر ان کی شناخت ہی مٹا دی گئی  اور کئی شہداء ایسے ہیں جو جامعہ حفصہ کے ملبے تلے مدفون ہیں
وہ شہدا جن کی شناخت ممکن ہوئی ان میں ایک میرے ماموں زاد (کزن)بھائی عطاء محمد شہید ہیں جنہیں ان کے والد نے صرف پنڈلی سے پہچانا اور دوسرے میرے سُسر مفتی انعام اللہ شہیدؒ ہیں جنہیں پہچاننے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں سوائے چند گوشت کے لوتھڑوں کے سو ان کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے کر کے ورثاء کو ان کی قبر دکھا دی گئی
بہت سارے حضرات پھیلائی گئی غلط فہمیوں کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ اس سانحہ میں صرف چند لوگ ہی شہید ہوئے ہیں زیادہ نہیں ہوئے تو وہ حضرات شہداء کی قبروں کا ایک بار دورہ ضرور کرلیں
شہدائے لال مسجد میں سب سے کم عمر شہید جن کی شناخت ہو سکی ان کی عمر صرف سولہ سال ہے
سبحان الله کیا ہی شہادت پائی ہے اس بچے نے کہ جوانی میں قدم رکھتے ہی جنتوں کی اراضی کا مالک بن گیا
جیسے میں نے کہا بہت کم ہیں جن کی شناخت ممکن ہوئی ورنہ ان کے علاوہ کتنے ہی کم عمر معصوم ہیں جن کی شناخت ہی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی قبروں کا کوئی اتہ پتہ معلوم ہو سکا ان میں میری خالہ اور مولانا عبدالعزیز غازی صاحب کی والدہ بھی ہیں جو آخری وقت میں زخمی حالت میں اپنے کمرے میں موجود تھیں اور ان کی آخری بات علامہ عبد الرشید غازی شہیدؒ سے ہوئی اس کے بعد نہ تو کسی نے انہیں دیکھا اور نہ ہی انکی قبر کا پتہ چل سکا کہ وہ کہاں مدفون ہیں
وطنِ عزیز میں نفاذِ اسلام کا مطالبہ کرنے والوں پر ظلم و سفاکیت کی ایک طویل داستان ہے جو صحرائے کربلاء میں برپا کیئے گئے بربریت کی یاد دلاتی ہے !

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *