مجاہد بننے کی خواہش کرنا
جہاد میں شرکت کرنے کے لیے سب سے پہلی چیز دل میں خواہش کا ہونا کہ آپ بھی مجاہدین کے ساتھ مل کر کفار سے لڑیں ۔اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا’’جوبھی اس حال میں مرا کہ اس نے نہ کبھی جہاد میں شرکت کی اور نہ ہی اس کے دل میں اس کی آرزو تھی وہ نفاق کی ایک حالت میں مرا ‘‘(صحیح مسلم)۔اس بات کا اندازہ کرنے کے لیے کہ آپ کے دل میں واقعی مجاہد بننے کی خواہش موجود ہے یانہیں قرآن کی اس آیت سے مدد لے سکتے ہیں ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:﴿وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَآ دُّوْا لَہٗعُدَّةً . . .﴾’’اگر ان کا جہاد میں نکلنے کا واقعی ارادہ ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے ‘‘(توبہ::۴۶)
دفاعی جہاد کی پانچ شرائط علماء نے بیان کی ہیں ۔مثلاً ابوقدامہ کے نزدیک :مسلم ہو،بالغ ہو،تنگ دست نہ ہو اور جسمانی معذور نہ ہو۔تنگ دست آدمی کا عذر صرف ایسی صورت میں قبول ہوگا جب کوئی شخص ا س کو معاشی طور پر سہارا دینے کے لیے تیار نہ ہو۔جس کسی کو شدید بیماری لاحق ہووہ بھی معذور ہوگا۔لیکن اگر کسی کے دل میں جہاد کی خواہش ہی موجود نہیں توایسے معذور کا عذر اللہ کے نزدیک قبول نہیں ہوگا۔کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ التوبہ کی آیت ۹۲ میں فرمایا ہے کہ :
﴿ وَّ لَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَا اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ ص تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلاَّ یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ توبۃ:(92)
’’ان لوگوں پربھی کوئی الزام نہیں جنہوں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے لیے سواری مہیا کریں اور آپ نے فرمایا کہ ’میرے پاس تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں ‘تو وہ واپس پلٹ گئے اس حال میں کہ ان کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے اس غم کے مارے کہ وہ جہاد میں جانے کے لیے خود رقم کا بندوبست نہیں کرسکتے‘‘۔