َ
اے مسلمان! تجھے کس چیز نے جہاد سے روک رکھا ہے ؟
ازقلم: مولانا محمد مسعود ازہر صاحب
اے جہاد کے فریضے کو چھوڑنے والے! اے توفیق اور حق کے راستوں سے ہٹنے والے! تُو کن مَحرومیوں میں جا گرا ہے اور کس قدر حق سے دور جا پڑا ہے، کاش! تو بھی بہادروں کے ساتھ مَعرکوں میں حصہ لیتا، تو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان و مال لُٹاتا، مگر تجھے اس سعادت سے روک رکھا ہے یا تو لمبی اُمیدوں نے …… یا موت کے خوف نے …… یا تجھ پر اپنے محَبوب مال اور خاندان کی جدائی شاق ہے …… یا تیرے لئے اپنے بیٹوں، خادموں اور اَہلِ خاندان کے جُھرمٹ سے نکلنا مشکل ہے۔ اے جہاد سے مَحروم رہنے والے! یا تو تیری مَحرومی کا سبب تیرا کوئی پیارا بھائی یا مَحبوب دوست ہے …… یا پھر تو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے میں ایسا لگ گیا ہے کہ جِہاد تجھے یاد ہی نہیں رہا …… یا تو اپنی خوبصورت اور باوقار بیوی کی وجہ سے رُکا ہوا ہے …… یا تیری عزَّت اور تیرا منصب تیرے پاؤں کی بیڑی بنا ہوا ہے …… یا تو اپنی خوبصورت کوٹھی اور سائے دار باغات میں مست ہو چکا ہے …… یا پھر شاہانہ لباس اور لذیذ کھانے تجھے جہاد میں نہیں نکلنے دیتے، ان چیزوں کے عِلاوہ اور کچھ ایسا نہیں جو تجھے تیرے رب سے دور کردے اور اگر ان چیزوں نے تجھے تیرے رب سے دُور کر رکھا ہے تو یہ تیرے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ کیا تو نے اپنے رب کا یہ فرمان نہیں سنا؟
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَکُمۡ اِذَا قِیۡلَ لَکُمُ انۡفِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اثَّاقَلۡتُمۡ اِلَی الۡاَرۡضِ ؕ اَرَضِیۡتُمۡ بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۳۸﴾
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کُوچ کرو تو زمین پر گرے جاتے ہو کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دُنیا کی زندگی پرخوش ہوگئے ہو دُنیا کی زندگی کا فائدہ تو آخرت کے مُقابَلے میں بہت ہی کم ہے ﴿ توبه: ۳۸﴾